(24 نیوز ) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم ہمارے مطالبات سے بھاگ رہی ہے،آئی پی پیز والا معاملہ جب تک حل نہیں ہوگا ہمارا دھرنا ختم نہیں ہوگا۔
راولپنڈی میں دھرنے کے ساتویں روز کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی جو مطالبات کررہی ہے وہ تمام حقیقت پر مبنی ہیں، حکومت مختلف لوگوں سے کہلوانا چاہ رہی ہے جماعت اسلامی کے مطالبات قابل عمل نہیں،انہوں نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے پاس ہماری کسی بات کا جواب نہیں، ہم سے بجلی قیمت وصول کریں،اضافی ٹیکس وصول نہ کریں، جو بجلی بن ہی نہیں رہی اس کی قیمت بھی ہم سے وصول کی جاتی ہے،اس ملک میں 1994سے ہی آئی پی پیز کا دھندا شروع ہوا۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے آئی پی پیز معاہدے کیے ان کو بھی فکس ہونا چاہیے تاکہ آئندہ قوم کے ساتھ مذاق نہ ہو،آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے ہزاروں ارب روپے لوٹ لئے گئے ،یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی باتیں کہ معاہدے ختم نہیں کرسکتے،جن معاہدوں کی مدت ختم ہوگئی ہے ان کو ختم کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جو بجلی مہنگے طریقے سے بن رہی ہے اس کے پیسے قوم کیوں ادا کرے، جماعت اسلامی کے دھرنے میں کراچی کے انڈسٹریل آئے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر بجٹ میں نیا سلیب لگایا اس کو ختم کیا جائے،ان کا کہنا تھا کہ یہ کہتے ہیں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا آئی ایم ایف نے کہا ہے، حکومت نے آٹا،چینی ،چاول اور بچوں کے دودھ پر بھی ٹیکس لگادیا ہے، یہ قوم کے ساتھ کیا مذاق ہورہا ہے؟ اسحاق ڈار کہاں کھڑے ہیں،چیئرمین ایف بی آر کہاں کھڑا ہے، یہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جس رکن ارکان اسمبلی اور سرکاری افسر کو گاڑی چلانی ہے، وہ پرائیویٹ پٹرول ڈلوائے، تمہارے گھر کی شاپنگ کا خرچہ مڈل کلاس اور تاجر برداشت نہیں کریں گے، وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا رہے ہیں مگر جاگیرداروں پر ٹیکس نہیں لگارہے،امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ انہیں بجلی کی قیمت لاگت کے حساب سے طے کرنی ہوگی، جاگیرداروں پر مناسب ٹیکس بھی لگ جائے تو عوام کو بڑا ریلیف مل سکتا ہے، جاگیردار چینی کا بحران پیدا کرکے بھی اربوں کماتے ہیں، یہ طبقہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رکھ کر ہم پر مسلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، پاکستان کی 54فیصد ایکسپورٹ کراچی سے ہوتی ہے، کراچی کی انڈسٹری کو پانی اور گیس کی سہولت ٹھیک سے میسر نہیں، ایف بی آر کے 25ہزار ملازمین ہیں، ایف بی آر میں انکوائری کا مطلب ہوتا ہے رشوت کا ریٹ بڑھانا، ایف بی آر میں 1ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، آپ ایف بی آر کو مزید اختیار دے کر انڈسٹری کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم بتادیں ان کو 1300سی سی والی گاڑی میں بیٹھنے پر تکلیف کیا ہے، بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے پر آپ کو امریکا یا کسی اور سے نہیں پوچھنا پڑے گا، یہ اتنی معمولی سی بات بھی نہیں مان سکتے، گورنمنٹ سود پر اپنے ہی بینکوں سے قرضے لیے جارہی ہے،حکومت سے مذاکرات کا تیسرا دور میڈیا پر ہونا چاہیے۔