(24نیوز)اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سندھ میں انسانوں کا جینا مشکل ہے تو درخت کیسے رہیں گے۔
تفصیلات کے مطابق:سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دریاؤں اور نہروں کےکنارے شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں جتنا بھی فنڈ چلاجائےلگتا کچھ نہیں، سندھ میں انسانوں کا جینا مشکل ہے تو درخت کیسے رہیں گے۔ سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لے لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات اور طرح سے چلتے ہیں، ڈاکو پکڑنے کے نام پر لاڑکانہ اور سکھر کے بیچ جنگل کاٹا گیا، سندھ پولیس ڈاکو تو کیا ایک تتلی بھی نہیں پکڑ سکی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دریاؤں اور نہروں کےکنارے شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے بلین ٹری منصوبے کا نوٹس لیا اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو فوری طلب کیا۔
چیف جٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ کے پی کے محکمہ جنگلات کا سارا عملہ چور ہے، نتھیا گلی، مالم جبہ اور مری سمیت کہیں درخت نہیں، کے پی کا بلین ٹری سونامی کہاں ہے؟ عدالت نے سیکرٹری ماحولیات کے پی کی بھی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو سیدھاجیل بھیج دینا چاہیے، ناران کاغان کچرابن چکا، جھیل کے اطراف کوئی درخت نہیں، نتھیا گلی میں درخت کٹ رہےہیں اور پشاور میں تو موجود ہی نہیں، اسلام آباد سے کراچی تک دریاؤں کے کنارے کوئی درخت نہیں۔عدالت نے کہا کہ آگاہ کیا جائے، منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے؟ اور فنڈز خرچ ہونے کا جواز بھی ریکارڈ کے ساتھ پیش کیا جائے، کتنے درخت کہاں لگے؟ تمام تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کی جائیں۔عدالت نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے سیٹلائٹ تصاویر بھی منگوالیں۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو بھی جھیلوں اورشاہراؤں کے اطراف درخت لگانے کا حکم دیا۔عدالت نے سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ نا آنے پر برہمی کا اظہار کیا اور سندھ و پنجاب حکومت کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے۔