(24نیوز )سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ میں نے بحیثیت چیف 4392 کیسز کا فیصلہ سنایا ،میرے دور میںمجموعی طور پر 27426 کیسز کے فیصلے ہوئے،کراچی لاہور پشاور اور کوئٹہ رجسٹری سے کیسز کی ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت شروع کرائی۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میری تمام تر پیشہ ورانہ کامیابیوں کا سہرا میرے والد محمد نور ایڈووکیٹ کو جاتا ہے ،،سندھ ہائی کورٹ کا جج بنا تو کام ایمانداری سے کیا ،بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کئے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی ،جیسے ہی چیف جسٹس کی ذمہ داری ملی کووڈ کا معاملہ شروع ہو گیا ،مجھے کام کیساتھ ساتھ ججز اور اسٹاف کی صحت کا بھی خیال رکھنا تھا ،کراچی لاہور پشاور اور کوئٹہ رجسٹری سے کیسز کی ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت شروع کرائی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ میرے دور میں 38,680 کیسز التوا کا شکار تھے ،مجھے خوشی ہے کہ میں نے بحیثیت چیف 4392 کیسز کا فیصلہ سنایا ،مجموعی طور پر 27426 کیسز کے فیصلے ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں۔یہ ہاتھ کس کا۔۔امیتابھ بچن کی پوسٹ نے مداحوں کو شش و پنج میں ڈال دیا
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے کہاکہ اسلام آباد، لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی میں سنیارٹی کے اصول پامال کئے گئے،وکلا برادری کی بہبود سے متعلق معاملات میں چیف جسٹس گلزار احمد نے سرپرستی کی۔صدر سپریم کورٹ بار نے کہاکہ چیف جسٹس گلزار احمد نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کیخلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا، سات ماہ گزرنے کے باوجود مقامی حکومتوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،پنجاب حکومت کے رویہ کیخلاف متاثرہ فریقین کی درخواستوں کو شنوائی نہیں ملی۔ انہوںنے کہاکہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا،وکلا تنظیموں نے آئین اور قانون کی بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔انہوںنے کہاکہ میرٹ کے برعکس تعیناتیوں کے باعث عدلیہ کو سنگین بحران کا سامنا ہے،جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت سے باقی نمائندوں کی رائے غیر موثر کردی گئی،اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کے معیار یکساں ہوں گے تو کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ججز کی زیادہ تر تعیناتیاں ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ہوئیں، وکلا تنظیموں نے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کمیشن کے اختیارات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے،قانون اور آئین کے تحت یکساں احتساب کے بجائے من پسند احتساب کو ترجیح دی گئی، ایک جرات مند جج نے ایک ادارے کے ذیلی سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے کیا آئین سے روگردانی کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ پر کیچڑ اچھالا گیا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف جھوٹے ریفرنس ختم کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز ہے۔
یہ بھی پڑھیں۔ حریم شاہ کو بڑا ریلیف مل گیا۔۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قانون کی بالادستی کیلئے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا،کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ بار اور بنچ میں ایسی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے،چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ باہمت ججز میں شامل ہیں،جسٹس مقبول باقر بھی ان دلیر ججز کا حصہ ہیں جو ابھی ریٹائر نہیں ہوئے،عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007 میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ جسٹس گلزار احمد کے دور میں عدلیہ نے کئی اتار چڑھاﺅ دیکھے،کورونا میں عدالت ایک دن بھی بند نہیں ہوئی پھر بھی مقدمات کا بوجھ 53 ہزار سے تجاوز کر گیا۔انہوں نے کہاکہ زیر التوا مقدمات کا بوجھ آنے والے چیف جسٹس کیلئے بڑا چیلنج ہوگا،سوموٹو کا اختیار پارلیمان نے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ کو دیا۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی اور ججز کے احتساب کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ادارہ اندر سے منقسم ہو تو بیرونی حملوں کیخلاف عوامی حمایت نہیں مل سکتی۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کیلئے آزاد بار ایسوسی ایشن پہلی دفاعی لائن ہے،وکلاءکی سیاسی وابستگی ہو سکتی ہے لیکن توپوں کا رخ اصل قلع کے تحفظ کیلئے ہونا چاہئے۔انہوںنے کہاکہ عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے۔ انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس نے بلدیاتی اختیارات پر اہم فیصلہ صادر کیا،ججز تعیناتی کیلئے آئیڈیل طریقہ کار بنانا ضروری ہے لیکن موجودہ نظام سے اچھے نتائج سامنے آئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی بحث کی حوصلہ افزائی پر چیف جسٹس داد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جسٹس عائشہ ملک قابلیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں،ججز تعیناتی میں شفافیت پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں۔ڈانسر گرل نورا فتحی کا دلکش انداز۔۔تصاویر میں گمنام آدمی بھی سامنے آ گیا
وائس چیئرمین پاکستان بار حفیظ الرحمان چودھری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس گلزار احمد نے دفاعی زمینوں کو کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کا قابل تحسین ازخود نوٹس لیا،جوڈیشل کمیشن کے قیام سے امید بندھی تھی کہ ججز تقرری میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر ہوگی۔ بدقسمتی سے اکثر ججز صاحبان کی تعیناتی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں کی گئی، بار کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کر کے ججز تعیناتی کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس صاحب، بار کی تاحیات نااہلی کی درخواست اعتراضات لگا کر واپس کرنے پر مایوسی ہوئی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ تاثر عام ہے کہ خفیہ ادارے ارباب اختیار کی نجی زندگی کی معلومات یکجا کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں،عدالت عظمیٰ خفیہ اداروں کی بلیک میلنگ پر غیر جانبدارانہ نگرانی کرے،پاکستان بار مطمئن ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال جیسی شفیق شخصیت کے پاس اعلیٰ ادارے کا اختیار منتقل ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔’شادی ڈاٹ کام‘۔۔کپل شرما شو میں ایک خاتون پر بار بار کیمرہ مین کیوں فریفتہ۔۔؟