(24 نیوز) سشین عدالت نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی مشروط ضمانت منظور کرلی۔ جج فیضان گیلانی نے ریمارکس دیئے کہ اس شرط پر ضمانت دے رہا ہوں کہ فواد چوہدری یہ گفتگو دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت میں الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے کیس میں فواد چودھری کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ پراسیکوٹر نے موقف اپنایا کہ آزادی اظہار رائے کا مطالب کسی شخصیت کا کباڑا کرنا نہیں ہوتا، چیف الیکشن کمیشنر کو منشی قرار دے دیا گیا۔
جج نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ وکلاء کے منشی ہوتے ہیں کیا کسی نے اعتراض نہی اٹھایا ؟ جس پر پراسیکوٹر نے کہا کہ مطلب یہ نہیں آپ کسی کے خلاف اس طرح کی گفتگو کریں۔
وکیل نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فواد چوہدری کے بیان کو دیکھیں تو اخلاقیات کہاں رہ گئیں، جس عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وہ تو پاکستان میں ویسے بھی نہیں ہیں۔
پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ الیکشن کمیشن آزادانہ فیصلے نہیں کر رہا، یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ جو تعیناتیاں ہو رہی ہیں وہ دھاندلی کیلئے کی جا رہی ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن اور پبلک پراسیکیوٹر نے فواد چوہدری کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، فواد چوہدری نے ٹاک شو میں کہا کہ اس ملک میں بغاوت فرض ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا فواد چوہدری کے خلاف ریکارڈ پر بغاوت کی دفعہ 505 سے متعلق کچھ ہے ؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے، تفتیشی افسر میڈیکل پر ہیں۔ جج فیضان گیلانی نے ریمارکس دیئے کہ جب فواد چوہدری اپنا بیان تسلیم کر رہے ہیں تو فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کی ضرورت کیوں تھی؟۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ فواد چوہدری ٹرائل کے دوران اپنے بیان سے مُکر سکتے ہیں، بیان فواد چوہدری کا ہی ہے یہ تعین کرنے کیلئے فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ ضروری تھا، فواد چوہدری نے جو کہا وہ تمام ریکارڈ پر موجود ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ کیس میں مزید انکوائری تو جاری رکھی جا سکتی ہے، اس کیس میں ریاست ملوث ہے اور اس کے مضمرات ہونگے، اس طرح ایک دوسرے کو آپس میں لڑانا بڑا سنگین معاملہ ہے۔
وکیل ای سی پی نے عدالت کو بتایا کہ جن نگران وزیراعلی کا نام لیا جا رہا ہے اور جن ریجیمز کی بات کی جا رہی ہے وہ دیکھی جانی چاہیے، فواد چوہدری نے آرمڈ فورسز سے متعلق بات کی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو لا کر بٹھا دیا۔
جج فیضان گیلانی نے ریمارکس دیئے کہ ویسے تو ہمارے پاس سارا قانون کالونیل ماسٹرز کا ہے لیکن کچھ دفعات ہمیں واپس اسی دور میں لے جاتی ہیں، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 اُن دفعات میں سے ایک ہے، پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں جا کر سو جاتے ہیں، کچھ پارلیمنٹیرینز اس وقت بھی عدالت میں موجود ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ اخلاقیات کی بات کر رہے ہیں، اعظم سواتی والے معاملے میں ہم نے اخلاقیات دیکھ لیں، اُس کے خلاف کچھ نہیں ملا تو میاں بیوی کی ویڈیو بنا کر اس کی بیٹی کو بھیج دی، عمران خان کو یہودی کہہ دیا گیا لیکن اُس نے ان پر کوئی پرچہ نہیں کرایا۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن اسلام آباد کے الیکشنز سے بھاگ رہا ہے، لوگ ووٹ ڈالنے لائنوں میں لگے تھے چیف الیکشن کمشنر بھاگ گیا، ہماری استدعا ہے کہ فواد چوہدری کی ضمانت منظور ہونی چاہیے۔ جس پر جج فیضان گیلانی نے کہا کہ اس شرط پر ضمانت دے رہا ہوں کہ فواد چوہدری یہ گفتگو دوبارہ نہیں دہرائیں گے، پارلیمنٹیرینز کو ایسے بیانات نہیں دینے چاہئیں۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے فواد چودھری کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 20 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔