(24نیوز) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 77 صفحات پر مشتمل ہے جو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جاری کیا،تفصیلی فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ دونوں مجرموں نے خودساختہ پریشانیاں بنائیں، دوران سماعت ہمدردیاں لینے کیلئے بےیار و مددگار بننے کی کوشش کی، فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کیلئے نہیں،عدالت نے کہا کہ سائفر کو اپنے لئے استعمال کیا گیا جس کا اثر پڑا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف وزری کی جس سے دوست ممالک کیساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا، اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط بنایا، سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے سسٹم کی سالمیت پر سمجھوتہ کیا گیا، سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا،سیکرٹ عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارت خارجہ کو واپس نہیں بھیجا، سائفر کیس 17 ماہ کی تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا، 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مقدمہ تاخیر سے دائر نہیں کیا گیا، بطور وزیراعظم بانی پی ٹی آئی کی ذمہ داری تھی کہ سائفر واپس بھجواتے، وزارت خارجہ وزیراعظم سے سائفر واپس نہیں مانگ سکتی، اب تک سابق وزیراعظم نے سائفر واپس نہیں کیا۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ کیس سائفر سے متعلق ہے جو وزارت خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا، سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسہ بھی جڑا ہے، 25 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے لیکن وکلاء صفائی غیر سنجیدہ دکھائی دیئے، 27 جنوری کو وکلاء صفائی غیر حاضر تھے جبکہ سرکاری وکیل موجود تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سیاسی پارہ ہائی،تحریک انصاف نے بڑااعلان کر دیا
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں، وکلاء صفائی عثمان گل، علی بخاری کے پہنچنے پر جرح کی تیاری کیلئے وقت دیا، جب جرح کا کہا تو وکلاء صفائی نے انکار کر دیا جس کے بعد سرکاری وکیل نے جرح کی، پراسیکیوشن نے ناصرف گواہوں بلکہ دستاویزات پر مبنی ثبوت بھی پیش کئے، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہو کہ پراسیکیوشن کے گواہوں میں کمی رہ گئی۔
عدالت کے فیصلے میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے مختلف وکلاء آئے، درخواستیں دے کر تاخیری حربے اپنائے گئے، دونوں کے وکلاء نے قانون کا مذاق بنایا، سابق وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی کا رویہ عدالت کے سامنے تھا، نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کئے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے 342 کے بیان دیئے لیکن دستخط نہ کئے، سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ سے ایسے رویے اور تاخیری حربوں کی توقعات نہیں تھیں، فئیر ٹرائل کیا، مجرموں کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ کر جرح نہیں کی گئی۔