(امانت گشکوری) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرا سکی۔فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے آزادامیدوار بنا دے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیئے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 ریکارڈ پر ہیں، تحریک انصاف نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کئے جن پر چیئرمین پی ٹی آئی گوہرعلی خان نے دستخط کئے۔
سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ میں 30 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا، میں 4 قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پارٹی سرٹیفکیٹس جمع کرانے کے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا، الیکشن میں سرٹیفیکٹ گوہر علی خان کے دستخط سے جمع کرائے گئے، پی ٹی آئی نے اس وقت انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرائے تھے، فارم 66 جمع کراتے وقت پی ٹی آئی کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟،وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، پی ٹی آئی نے فارم 66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکٹ 13 جنوری کو جاری کئے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ تو کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹ منسلک ہیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔
جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف کا انتخاب نہیں ہوا تھا؟،وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کرائی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے، وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ حامد رضا کا ہر دستاویز ان کے پچھلے دستاویز سے مختلف ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ دینا چاہیے تھا یا آزادامیدوار کا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ جمع کرانا چاہیے تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن میں تو حامد رضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا نہ کہ آزاد امیدوار،وکیل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر کو آیا، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اور 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہو سکتا تھا،اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا تحریک انصاف کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہو جاتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آ رہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے،اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کیلئے پارٹی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرا سکی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کیلئے سال دے دو۔
بعد ازاں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمد خان نے سرٹیفکیٹ نہ ڈیکلریشن میں کچھ لکھا ہوا، ایسے بے شمار ہیں جو کاغذات نامزدگی میں بلینک ہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ میری اردو کچھ کمزور ہے، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتاہوں،دوران سماعت وکیل سکندر بشیر کو پی ٹی آئی رہنما کنول شوذب کا صحیح نام لینے میں دشواری پیش آئی، وکیل نے بتایا کہ کنول شوذب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہیے، وہ فیصلے سے متاثر نہیں ہوئیں، کنول شوذب تحریک انصاف میں ہیں، خواتین ورکرز ونگ کی سربراہ ہیں۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ 4 لوگ ممبر قومی اسمبلی بطور آزاد امیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل سے ضم نہیں ہوئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ دیا لیکن وہ آزاد امیدوار کیسے قرار پائے؟،جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق کتنے امیدواروں کا سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن منظور ہوا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ سب آزاد امیدوار ہی رہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں کے پاس اختیار ہے کہ تین روز میں کسی سے منسلک ہو جائیں، سب معاملہ حل ہوجائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا، باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتی ہوں تو دوسرے صوبے میں نہیں مل سکتیں؟،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہر انتخابات الگ ہوتے ہیں، اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا درست ہے؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں،اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا بیرسٹر گوہرعلی خان موجود ہیں؟ ان کے سوال پر گوہر علی خان روسٹرم پر آگئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے دریافت کیا کہ آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفکیٹ جمع کرائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، کون سا بیان آپ کا درست ہے؟
اس پر گوہر علی خان نے جواب دیا کہ ہر امیدوار دو، دو فارم جمع کرا سکتا ہے، میں نے آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کرائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لئے آپ نے؟گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ایک حلقے کیلئے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، میں نے الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے، 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفکیٹ پہنچا دیئے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں۔
اس موقع پر معاون وکیل نے کہا کہ فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے، پیپلزپارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے،کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی ف الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے، اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں کے حوالے سے الگ سیکشن موجود ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے؟ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئینی ادارے کے ساتھ ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرا دیئے تاہم عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لئے کوئی نہیں ہیں، اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کرا چکا ہوں، الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کے پی میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں کے پی میں باپ پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، باپ پارٹی کے پاس صوبے میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی،ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کو مخصوص نشست دی تھی،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کیلئے باقاعدہ نیا شیڈول جاری کیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف موقف اپنایا ہے، الیکشن کمیشن آج کہتا ہے گزشتہ انتخابات میں کیا گیا ان کا فیصلہ غلط تھا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کے پی حکومت نے اس وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ اگر چیلنج نہیں کیا تھا تو بات ختم، پی ٹی آئی کا 2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ باپ پارٹی نے کے پی اسمبلی کیلئے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جو فارمولا الیکشن کمیشن نے پہلے اپنایا تھا اب کیوں نہیں اپنایا جا رہا،اسی کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل مکمل ہوگئے۔
پنجاب اور بلوچستان حکومت نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے، معطل شدہ ارکان اسمبلی کے وکیل شاہ خاور نے تحریری دلائل جمع کرا دیئے،اٹارنی جنرل نے دلائل کیلئے 45 منٹ مانگ لئے جس پر سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی، سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں، سترہویں ترمیم کے ذریعے خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کیلئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا،جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے۔
جسٹس عائشہ نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستوں کیلئے 2002 سے یہی فارمولہ چل رہا ہے؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزادامیدوار بنا دے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزادامیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزادامیدوار آیا ؟
بعد ازاں عدالت نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کو کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا۔
یاد رہے کہ 25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں،گرشتہ سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا۔