سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی لانگ مارچ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا

Jun 01, 2022 | 20:21:PM

(24 نیوز)سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے لانگ مارچ اور سڑکوں کی بندش سے متعلق درخواست دائر کی، جس پر عدالت عظمیٰ کے 14 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کر دیا گیا، فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، تحریری حکمنامے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لانگ مارچ کی صورتحال ختم ہوگئی، سڑکیں کھل گئیں اور پٹیشن غیر موثرہوگئی لہٰذا اسلام آباد بار کی پٹیشن نمٹا دی ہے۔تحریری فیصلے کے مطابق عدالت عظمیٰ کو مایوسی ہوئی کہ عدالتی کوشش کا احترام نہیں کیا گیا، عدالت کی کارروائی کا مقصد دونوں فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا، عدالتی حکم نامہ موجود فریقوں کی موجودگی میں جاری کیا گیا، اس کیس میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ اخلاقی اقدار میں کمی واقع ہوئی، سیاسی جماعتوں کےاقدام سے عوامی حقوق اور املاک کو نقصان پہنچا۔اکثریتی فیصلہ میں متعدد سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد سے جواب طلب کیا گیا ہے۔
عدالت نے سوالات میں پوچھا کہ عمران خان نے کتنے بجے پارٹی ورکرز کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا؟ کب،کہاں اورکس طرح مظاہرین نے ممنوعہ جگہ پر داخلے کیلئے بیرئیرپارکیا؟ ریڈ زون میں گھسنے والامجمع منظم تھا؟ کسی کی نگرانی میں تھا یا اچانک داخل ہوا؟عدالت نے پوچھا کہ کیا کوئی اشتعال انگیزی ہوئی یا حکومت کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی؟ کیا پولیس نے مظاہرین کے خلاف غیرمتوازن کارروائی کی ؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ اگر ریڈزون کی سکیورٹی کے انتظامات تھے تو کیا حکام نے نرمی کی ؟ کیا مظاہرین نے سکیورٹی بیریئر کو توڑا یا خلاف ورزی کی؟
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مظاہرین میں سے کوئی یا پارٹی ورکر جی نائن یا ایچ نائن گراو¿نڈ پہنچا؟ کتنے سویلین زخمی یا ہلاک ہوئے، ہسپتال پہنچے یا گرفتار کیے گئے؟عدالت نے حکم دیا کہ سوالات کے جوابات پر مبنی رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کرائی جائے اور ان تمام ثبوتوں کا جائزہ لےکر فیصلہ کیا جائےگا عدالتی حکم کی تعمیل ہوئی یا نہیں؟
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حقائق کی بنیادپر تصدیق کی ضرورت ہےکہ عدالت کی دی گئی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی، عدالت کو دیکھناہوگا کہ خلاف ورزیوں پرکس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو، پی ٹی آئی قیادت اوردیگرسیاسی جماعتیں پرامن سیاسی سرگرمیوں کاضابطہ اخلاق بنائیں گی۔
اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پرامن احتجاج آئینی حق ہے مگر یہ ریاست کی اجازت کے ساتھ ہوسکتا ہے، ایسے احتجاج کی اجازت ہونی چاہیے جب تک آرٹیکل 15 اور16 کے تحت پابندیاں لگانا ناگزیر ہوجائے، احتجاج کا حق قانونی، معقول بنیادوں کے بغیر نہیں روکا جاسکتا۔اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں پر 25 مئی کوحکم جاری کیا، حکم نے مظاہرین اور عوام کے حقوق اور ریاست کے فرائض میں توازن پیدا کیا، عدالت نے نیک نیتی سے توازن قائم کرنے کا حکم دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے مخالف فریقین کی یقین دہانیوں پراعتماد کرتے ہوئے حکم دیا، عدالت کی طرف سے نیک نیتی سے کی گئی کوششوں کی توہین کی گئی اور عدالت کو 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی پر رنج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں مشروط واپسی کا عندیہ دیدیا

مزیدخبریں