(امانت گشکوری) سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت، عدالت نے کارروائی اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بنچ سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید 8رکنی لارجر بنچ میں شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری ٹاور حملہ اور جلاؤ گھیراؤ کا معاملہ، اسد عمر کی عبوری ضمانت 13 جون تک منظور
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے کچھ کہنا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمارے دو قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ ریویو آف آرڈراینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے اور دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، دونوں قوانین میں ریویو اور وکیل کرنے کی شقوں کی آپس میں مماثلت ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ خوشی ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت مماثلت والے قوانین میں ترمیم کر رہی ہے، حکومت کوعدلیہ کی قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔
اٹارنی جنرل کا جراح کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں، دونوں قوانین میں سے کس پر انحصار کرنا ہے اس کیلئے ایک حل پر پہنچنا ضروری ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں قوانین میں ہم آہنگی کیلئے پارلیمنٹ کو دیکھنے کا کہہ سکتے ہیں، آپ کی اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں، پارلیمنٹ نے قانون سازی سے متعلق کاروائی کا ریکارڈ نہیں دیا، مگر خوشی قسمتی سے ریکارڈ پارلیمنٹ کی ویب سائیٹ پر تھا جو ہم نے لے لیا ہے،آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ:تحریک انصاف کے کارکنوں کی نظر بندی کالعدم قرار ، رہا کرنے کا حکم
دواران سماعت وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی کاروائی طلب کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اخبارات کے مطابق پارلیمنٹ نے کاروائی عدالت کو فراہم کرنے سے انکار کیا، پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تھا کہ تمام کاروائی ویب سائٹ پر موجود ہے، اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے، تمام وکلاء جو کراچی سے لمبا سفر کر کے آئے ان سے معذرت کرتے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس سنتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہاں موسم خوشگوار ہے امید ہے سب انجوائے کریں گے، دونوں قوانین کے باہمی تضاد سے بچنے کیلئے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، سپریم کورٹ کے انتظامی معاملے پر قانون سازی عدلیہ کے مشورے سے نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کی مشاورت سے اب قانون میں ترمیم ہوگی، دونوں قوانین کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی مشاورت ہوگی، کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیمی اداروں کی گاڑیوں میں گیس سلینڈر پر پابندی
واضح رہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے نئے قانون پر عمل درآمد روکنے کا عبوری حکم دیا تھا۔ نئے قانون میں چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو محدود کیا گیا تھا۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نئے قانون کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے، سپریم کورٹ قانون کو بادی النظر میں عدالتی معاملات میں مداخلت قرار دے چکی ہے۔