معاشی میدان میں زبردست کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد چین اب ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے جھنڈے گاڑتے ہوئے بہت جلد ساری دنیا سے آگے نکلنے کی پوزیشن میں آتا جارہا ہے - ٹیکنالوجی کے حوالے سے وکٹری سٹینڈ کی نمبر ون پوزیشن پر کھڑا ہونا اب محض چند سالوں کی بات ہے - 24 مئی سے 30 مئی تک چائینہ اکنامک نیٹ کی دعوت پر بیجنگ اور عظیم اور جدید صنعتی شہر شن ژن کے دورے کا موقع ملا - لاہور میں موجود چینی قونصلیٹ کے متحرک کردار کے سبب عوام کے عوام سے رابطوں کے ساتھ ، ثقافتی اور تجارتی تعلقات میں بھی بہت تیزی اور بہتری آئی ہے - ہم آج تک تو امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کا ذکر ہی کرتے اور سنتے آئے ہیں لیکن اب پوری دنیا کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ چین کے سپر پاور بننے کی رسم مکمل ہونے کے بعد جو ورلڈ آرڈر نافذ ہوگا وہ تمام ممالک میں ترقی اور خوشحالی لائے گا ۔
چین کا دورہ کرنے کے دوران یہ چیز نمایاں طور پر نظر آئی کہ چینی قیادت کا وژن یہی ہے کہ پوری دنیا خصوصاََ خطے کے ممالک کو معاشی سرگرمیوں کے ذریعے غربت کی لعنت سے چھٹکارا دلوا کر تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر ڈالا جاسکے - پاکستان کے لیے خوشحالی کی عظیم ترین شاہراہ بلاشبہ سی پیک ہی ہے - افسوس کی بات ہے کہ بعض عالمی طاقتوں اور اسکے مقامی کارندوں نے اس عظیم الشان منصوبے کی راہ میں نہ صرف رکاوٹیں ڈالیں بلکہ اسکے خلاف باقاعدہ مہم بھی چلائی ۔ یقیناََ چینی قیادت اور عوام نے اس عمل کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جو فطری عمل ہے - پاکستان میں پچھلے سال تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کی چھٹی ہونے کے بعد سی پیک کے حوالے سے ایک بار پھر پیش رفت شروع ہوگئی ہے- اس پیش رفت کی رفتار کتنی ہے اس کا اندازہ امریکہ اور زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر ڈالے جانے والے غیر معمولی اور ناجائز دبائو سے لگایا جاسکتا ہے -لیکن اب یہ بات واضح ہے کہ ریاست پاکستان اس مرتبہ سی پیک کے حوالے کسی کا دباو قبول نہیں کرے گی -
چین جاکر سرکاری و کاروباری شخصیات سے ملاقاتوں اور چینی عوام کے تاثرات سے پتہ چلا کہ سی پیک نے دونوں ممالک کی فولادی دوستی کی مضبوطی میں کئی گنا مزید اضافہ کردیا ہے - چینی اس حوالے سے بہت خوش اور پرجوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان اس سنہری موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے - آپ بیجنگ کسی بھی کام کے لیے جائیں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ دیوار چین نہ دیکھیں - سو ہم بھی دیوار چین کی سیر کو گئے ۔ دنیا کے سات عجوبوں میں شامل یہ شاہکار انسانی محنت اور عظمت کا ایک گرانقدر نمونہ ہے - بیجنگ میں بھی پیلس میوزیم کا دورہ بہت دلچسپ اور معلوماتی رہا۔ قلعہ نما طویل و عریض عمارت فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے - لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے کامرس کے اخبار اکنامک ڈیلی کے دفتر کا دورہ بہت دلچسپ تھا - باوقار عمارت میں شاندار آلات کے ساتھ پیشہ ورانہ مہارت سے مالا مال صحافیوں کو کام کرتے دیکھا -
سوال جواب کی نشست بھی بہت جامع اور دلچسپ رہی - اخبار کی انتظامیہ کے اعلی حکام نے پاکستانی صحافیوں کے وفد کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ تحائف بھی پیش کیے -سٹیٹ گرڈ کارپوریشن کا دورہ بہت معلوماتی رہا - ایک بڑے ہال میں بہت بڑی سکرین پر پریزنٹیشن دی گئی ، جس سے پتہ چلا کہ چینی ماہرین نے صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے دور دراز کے ممالک میں بھی بجلی پیدا کرنے اور سپلائی لائنز بچھانے کا سارا عمل چند ہفتوں میں مکمل کرلیا ۔ سکھر سے ملتان تک موٹر وے تعمیر کرنے والی چائینہ سٹیٹ کنسٹرکشن اینڈ انجینئرنگ کارپوریشن میں اعلی حکام سے بریفنگ کے دوران پتہ چلا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ مختصر ترین وقت میں عظیم الشان تعمیراتی منصوبے کس مہارت سے مکمل کئے جارہے ہیں - یہ بات جان کر بہت خوشی ہوئی کہ چین کی تمام بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ماہرین پاکستان میں بھی مختلف منصوبوں سے منسلک رہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کے متعلق بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں - چائینہ ریڈیو کا دورہ اس لیے زیادہ دلچسپ رہا کہ اس کی اردو نشریات کے شعبے میں چینی صحافیوں کے ساتھ کئی پاکستانی صحافی بھی کام کررہے ہیں - بہت مفید گفتگو ہوئی پھر وفد کے ارکان نے باری باری چینی ریڈیو کے لیے انٹرویو بھی ریکارڈ کرائے -
بیجنگ میں قیام کے دوران ہی پاکستان کلچرل ڈے کی رنگا رنگ تقریب میں شرکت کا موقع ملا - پاکستان کے سفیر نے مہمانوں کے ساتھ بعض دیگر ممالک کے سفیروں کو بھی مدعو کررکھا تھا - کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو میں سب کا اتفاق رائے تھا کہ پاکستان کو ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنا ہے تو یکسو ہوکر اپنا رخ چین کی جانب موڑنا ہوگا - چینی میزبانوں نے وفد کے شرکا کے لیے بلٹ ٹرین کے سفر کا بھی اہتمام کیا تھا جو ہر لحاظ سے خوشگوار تجربہ رہا - بیجنگ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد تین گھنٹے کی فضائی مسافت پر واقع دنیا میں تیزی کے ساتھ ابھرتے ہوئے صنعتی شہر شن ژن کا رخ کیا - سمندر کنارے واقع اس نہایت خوبصورت اور جدید ترین شہر کا جی ڈی پی کے حوالے سے چین میں تیسرا نمبر ہے - بلند و بالا عمارتوں سے گھرا ہوا یہ شہر محض چند سال پہلے تک گوادر کی طرح ایک قصبہ تھا -پھر چینی قیادت نے اپنے عزم اور محنت سے اسے دنیا کا ٹاپ انڈسٹریل اور کمرشل سنٹر بنا دیا - شن ژن کی خوبصورتی بھی بے مثال ہے - اپنی آمد کے اگلے روز ہواؤے کے ہیڈ آفس جانے اور ماہرین سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ۔ انتہائی خوبصورت اور جدید عمارت میں قائم ہیڈ آفس کے باہر سبزہ ، درخت اور پھول جنت کا سا ماحول پیش کرتے ہیں - عمارت میں داخل ہوتے ہی انسان جہاں حیرت میں گم ہوجاتا ہے ، ہزاروں کرسٹل استعمال کرکے بہت بڑا فانوس لگایا گیا ہے - یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے محل میں آگئے ہیں - پھر اس کے آگے ٹیکنالوجی کا جادو شروع ہو جاتا ہے -تعلیم سے صحت ، کاروبار سے معاشرت تک کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ جہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو استعمال نہ کیا جارہا ہو-
مختصر یہ کہ ایک آرام دہ اور ائر کنڈیشنر کیبن میں بیٹھا بندہ پوری کی پوری بند گار ہ پر سامان کی آمد رفت کو کمپیوٹر کے ذریعے مشینوں سے کنٹرول کررہا ہوگا - کان کنی جیسے جان جوکھم کے کام میں اب کوئی خطرہ نہیں - کیبن میں بیٹھا شخص سرنگیں کھودنے کا سارا کام کمپیوٹر کے ذریعے ربورٹس سے لے رہا ہوگا - شن ژن میں ہمارے رہائشی ہوٹل اور باہر ریسٹورنٹ میں ہمیں بھی ایسے ہی ربورٹس سے واسطہ پڑا تو جانا چین اب ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی سب کو پچھاڑنے والا ہے - شاید اس لیے بھی امریکہ بہت خائف ہوچکا ہے ۔ ویسے امریکہ کے بھی کئی کاروبای افراد چین میں کمپنیاں کھول رہے ہیں کیونکہ سہولتیں بہت زیادہ اور پیداواری لاگت بہت مناسب ہے ۔ سینکڑوں ایکٹر پر پھیلی موٹر وہیکلز بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی کے ہیڈ آفس گئے جہاں بریفنگ کے دوران پتہ چلا کہ دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرانک گاڑیاں یہیں تیار ہورہی ہیں - نہایت خوبصورت اور مضبوط کاریں اور جیپیں جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ تھیں - اسی وزٹ کے دوران پاکستان سے آئی موٹر وہیکلز انڈسٹری کی اہم شخصیات سے بھی اچانک ملاقات ہوگئی - ان کا بجا طور پر یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی کمپنیوں کی الیکٹرانک گاڑیوں کو فروغ دینے کی پالیسی اختیار کرلی جائے تو صرف آئل امپورٹ بل کی مد میں ہی اربوں ڈالر بچائے جاسکتے ہیں - گاڑیوں کو چارج کرنے کے لیے گھروں میں ہی سولر پینل لگائے جاسکتے ہیں -
کیا خوب بات ہے کہ عظیم ترین صنعتی ملک چین میں ماحولیاتی آلودگی دیکھنے کو نہیں ملتی - ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے ۔ یہ بات خصوصی طور پر نوٹ کی گئی کہ چینی عوام پاکستانیوں کے لیے خصوصی برادرانہ جذبات رکھتے ہیں - شاہد دنیا کے کسی بھی اور دوست ممالک سے زیادہ - چین چاہتا ہے کہ پاکستان ترقی کے لیے اس سے ہر طرح کی مدد لے اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے ہمیشہ کے لیے توڑ دے - راستہ بھی موجود ہے اور وسائل بھی مگر فیصلہ خود پاکستان کی لیڈر شپ نے کرنا ہے کہ ہم اپنے وطن کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں ؟ چین کی طرف سے تو کھلی پیشکش ہے۔
’’اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا“