طالبان کی جانب سے افغان بچیوں کی تعلیم پر پابندی کو 526 دن گزر گئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) افغانستان میں طالبان حکام کی جانب سے خواتین اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو عالمی تنقید کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان میں اس پابندی کو 526 دن گزر چکے ہیں اور اب تک بھی افغان بچیاں اور خواتین تعلیمی اداروں میں جانے پر پابندی کا شکار ہیں۔
افغانستان کی نیوز ایجنسی باختر کے مطابق وزارت تعلیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول اس وقت تک بند رہیں گے جب تک کہ اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق کوئی منصوبہ پوری طرح سے تیار نہیں کر لیا جاتا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے طالبان کے ایک ترجمان انعام اللہ سمنگانی سے جب اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس بارے میں کوئی وضاحت کرنے سے منع کردیا۔
دوسری جانب افغان وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کسی بھی طرح کا تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کالعدم تنظیم کے انٹیلی جنس سربراہ کابل میں ہلاک
تعلیم سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے طالبان کی طرف سے افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے ایک بڑا دھچکا بتایا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر اور افغانستان کی سابق سینیئر محقق ہیتھر بار نے بھی اس فیصلے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے طالبان کے فیصلے کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر بعض ایسی ویڈیو پوسٹ کی ہیں جس میں افغان طالبات کو روتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
طالبان کی وزارت تعلیم نے تسلیم کیا ہے کہ حکام کو ملک میں اساتذہ شدید قلت کا سامنا ہے۔ مغرب کی حمایت یافتہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب طالبان اقتدار پر قابض ہوئے تو ملک سے دسیوں ہزار افراد فرار ہو گئے جس میں اساتذہ کی بھی ایک بڑی
تعداد تھی۔
بین الاقوامی برادری نے مستقبل میں طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کیلئے جو مختلف شرائط پیش کی تھیں ان میں لڑکیوں کی تعلیم ایک اہم مطالبہ ہے جس پر عملدرآمد کے حوالے سے ابھی تک کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آرہے۔