(24 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی نااہلی کیس میں درخواست گزار کے وکیل کو آئندہ ہفتے دلائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بدھ اور جمعرات کو آپ دلائل مکمل کریں، پھر عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل سنیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بنچ نے عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کی درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر لارجر بنچ میں شامل ہیں۔
وکیل حامد علی شاہ نے موقف اپنایا کہ درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہوا ہوں۔ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عمران خان نے متفرق درخواست دائر کی ہے جس پر اعتراض عائد کیا گیا، ہمارا مقصد دستاویزات عدالتی ریکارڈ پر رکھنا ہے، نادرا نے بائیومیٹرک تصدیق سے انکار کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی دکان پر چلے جائیں وہاں بائیومیٹرک ہو جائے گا، عمران خان کے وکیل نے گزشتہ سماعت پر اعتراض اٹھایا تھا، ان کے وکیل کا موقف ہے کہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے رکن قومی اسمبلی نہ ہونے پر درخواست قابل سماعت نہیں۔ وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان قومی اسمبلی کے ممبر نہ ہوں تو کیا صورتحال ہوگی ؟ وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ عمران خان اب بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں، ان کو میانوالی کی نشست سے نااہل قرار دیا گیا۔
وکیل حامد علی شاہ نے موقف اپنایا کہ عمران خان نے قومی اسمبلی کی مزید سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی، الیکشن جیتے کے بعد کامیاب امیدوار ممبر قومی اسمبلی بن جاتا ہے، عمران خان حلف نہ اٹھا کر بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں، اسمبلی میں بیٹھنے اور ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے حلف لینا پڑیگا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا حلف اٹھانے کیلئے کوئی مدت متعین ہے ؟ وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ قانون حلف لینے کیلئے کوئی مدت مقرر نہیں کرتا، چوہدری نثار علی خان حلف نہ اٹھا کر بھی ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو اسحاق ڈار کے حلف سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کے حلف سے متعلق معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے سامنے آیا تھا، اسحاق ڈار کے حلف سے متعلق فیصلہ عدالت کے سامنے پیش کریں۔
درخواست گزار محمد ساجد کے وکیل نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حلف پارلیمنٹ میں آفیشل ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے ضروری ہے، جب کسی ممبر کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو جائے تو اسکو مراعات ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کے وکیل کے اٹھائے اس نکتے پر بھی آگاہ کرنا ہے، درخواست گزار کا کیس ہے کہ عمران خان نے کاغذات نامزدگی میں درست معلومات فراہم نہیں کیں ؟۔
حامد علی شاہ نے دوران سماعت اپنے ہی لکھے پرانے فیصلے کا حوالہ دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ کا ہی فیصلہ ہے۔ اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں امیدوار کیلئے بیان حلفی جمع کرانے کی شرط رکھی تھی۔ وکیل درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ الیکشن ٹربیونل کے پاس غلط معلومات ملنے پر الیکشن کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں ایسا نہیں ہوا، اس الیکشن کو تو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو نااہل نہیں کر سکتا، فیصلے کے مطابق اہلیت دیکھنے کا اختیار ہائیکورٹس اور عدالتوں کا ہے، اس فیصلے کو بھی دیکھ لیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حبیب اکرم کیس میں سپریم کورٹ نے بیان حلفی کاغذات کا حصہ بنایا، فیصلے کے مطابق زیر کفالت بچوں کی تفصیلات بتانا لازم تھیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق یہ تفصیلات لازم نہیں ہیں، اثاثوں کی فہرست میں بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات بتانی ہیں، اس اعتبار سے ڈائریکٹ نہیں مگر اِن ڈائریکٹ طور پر بچوں کی تفصیلات لازم ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر تفصیلات غلط جمع کرائی گئی ہوں تو الیکشن ایکٹ کیا کہتا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اگر تفصیلات غلط ہوں تو یہ کرپٹ پریکٹس میں آئے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غلط تفصیلات پر الیکشن کمیشن نے 120 دن کے اندر ایکشن لینا ہوتا ہے، اگر الیکشن کمیشن نے ایکشن نہیں لیا تو پھر بس نہیں لیا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان کے خلاف موجودہ درخواست انہیں ایک اے 95 سے ڈی سیٹ کرنے کی تھی۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہماری درخواست میں کسی بھی پبلک آفس سے متعلق لکھا گیا ہے۔
وکیل سلمان راجہ نے کہا کہ یہ درخواست نہیں ہو سکتی کہ وہ شخص کبھی کوئی پبلک آفس ہولڈ نہ کرے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق پارٹی سربراہ کو پبلک آفس ہولڈر تصور کیا جائے گا۔ جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نہیں جی ایسا نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ راجہ صاحب، تحمل کریں، ان کی بات بھی سن لیں، کوئی جلدی نہیں ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان کے سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے پر بھی کیس قابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ الیکشن ٹربیونل میں تو نہیں گیا ؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ٹربیونل میں گیا لیکن وہاں میرٹ پر فیصلہ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف دو ریفرنسز مسترد کر چکا ہے؟۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف ریفرنس تکنیکی بنیادوں پر خارج کئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر بیان حلفی غلط ثابت ہوتا ہے تو اسکے کیا نتائج ہونگے ؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ غلط بیان حلفی پر 62 ون ایف لگتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے فیصل واوڈا کیس موجود ہے، اس کو دیکھ لیجئے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کیس کی سماعت 8 مارچ تک ملتوی کر دی۔