سردار ایاز صادق کا عمران خان کے دوست سے تیسری بار سپیکر بننے تک کا سفر

Mar 01, 2024 | 17:00:PM

(ویب ڈیسک )سردار ایاز صادق کا شمار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ن لیگ کے پلیٹ فارم سے تیسری بار سپیکر  قومی اسمبلی بننے جا رہےہیں ، لیکن آپ کو حیرانی ہو گی  کہ وہ کسی وقت میں پاکستان تحریک انصاف  کے بانی اور سابق  وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست تھے اور اپنے سیاسی کیریئر  کا آغاز بھی دونوں نے ایک ساتھ اور ایک ہی حلقے سے کیا تھا۔ 

سردار ایاز صادق سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست تصور کیے جاتے تھے، دونوں نے تعلیم بھی ایک ہی ادارے سے حاصل کی، سردار ایاز صادق نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ بھی عمران خان ہی کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر لیا،لاہور سے عمران خان کی انتخابی سیاست کا آغاز بھی سردار ایاز صادق کے حلقے سے ہوا،عمران خان قومی اسمبلی اور ایاز صادق پنجاب اسمبلی کے امیدوار تھے۔ دونوں ہار گئے۔ پھر سیاست میں دونوں کی راہیں جدا ہوئیں۔
اسی حلقے سے جہاں سے ’دونوں دوست‘ عمران خان اور ایاز صادق پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑے، بعد میں وہیں سے وہ حریف کے طور ایک سے زیادہ مرتبہ انتخابات میں اترے۔ ہر مرتبہ ایاز صادق نے عمران خان کو شکست دی،پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر تاریخ ان دونوں کو بار بار آمنے سامنے لاتی رہی، وہ سردار ایاز صادق ہی تھے جنھیں سنہ 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کارروائی چلانے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کی نشست پر بٹھایا گیا۔

صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے سردار ایاز صادق نے سنہ 2002 میں پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچنے کے بعد ملک میں اب تک ہونے والے ہر انتخاب میں حصہ لیا اور ہر بار جیتے ہیں،حالیہ انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے ہیں،اتحادی حکومت میں اس مرتبہ اور بھی نام گردش میں رہے تاہم ایاز صادق ن لیگ، پی پی پی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار بننے میں کامیاب ہو گئے،اپنے ’دوست‘ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی سے سیاست کا آغاز کرنے کے بعد ن لیگ میں شمولیت اور پھر قلیل مدت میں پارٹی کی قیادت کا اعتماد جیتنے والے نومنتخب سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کون ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پی ٹی آئی کا قیام اور ایچیسن کالج کے دوست

سابق کرکٹر اور 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والے پاکستان کے مقبول ترین کپتان عمران خان نے جب سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ کیا تو سنہ 1996 میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی،اسی برس ایک صدارتی فرمان نے اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کو تختہ الٹ دیا، نئے عام انتخابات سنہ 1997 میں ہوئے، ان میں پی ٹی آئی نے پہلی مرتبہ حصہ لیا، جماعت کے سربراہ عمران خان نے لاہور کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا،عمران خان کے ساتھ ساتھ یہ سردار ایاز صادق کے لیے بھی انتخابی سیاست کا باقاعدہ آغاز تھا۔
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر ایاز صادق ہی عمران خان کو اپنے حلقے یعنی گڑھی شاہو کے علاقے سے انتخاب لڑنے کے لیے لائے تھے‘ماجد نظامی کے مطابق ایاز صادق ایم پی اے کے لیے جبکہ عمران خان ایم این اے کے لیے امیدوار بنے تاہم دونوں ہی ہار گئے،یہ دونوں ایچیسن کالج لاہور میں ایک ساتھ پڑھتے تھے اور دوست بھی تھے۔ جب عمران خان نے سیاسی جماعت بنائی تو ایاز صادق اس میں شامل ہو گئے،تاہم سیاست میں ان کا ساتھ زیادہ دیر نہ چل پایا،ایک ساتھ انتخاب لڑنے کے اگلے ہی برس ایاز صادق نے عمران خان کی جماعت سے راہیں جدا کر لیں۔
پرویز مشرف کے دور میں ن لیگ میں شمولیت
سنہ 1997 میں نواز شریف کی جماعت بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم دو سال بعد ہی اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا،سنہ 1999 میں پیدا ہونے والے حالات میں سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میں شریف خاندان کو جیلوں سے نکال کر دس برس کے لیے سعودی عرب کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔
اسی دور سنہ 2000 میں سردار ایاز صادق نے سعودی عرب میں ن لیگ کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کی، واپسی پر انھوں نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران ن لیگ میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کر دیا،
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ 'یہ ن لیگ کے لیے بدترین دور تھا، یہ جماعت زیرِ عتاب تھی، جب طاقتور حلقے کے اشارے پر اس کے اپنے لوگ اس کو چھوڑ کر کنگز پارٹی میں شامل ہو رہے تھے تو ایاز صادق نے اس وقت ن لیگ میں شمولیت اختیار کی،وہ کہتے ہیں ایاز صادق لاہور کے اپنے حلقے میں اچھی پہچان رکھتے تھے اور ان کا خاندانی اثر و رسوخ بھی تھا،سنہ 2002 میں پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، سردار ایاز صادق نے ن لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر اپنے علاقے گڑھی شاہو سے الیکشن میں حصہ لیا، ان کے مدِ مقابل ان کے پرانے دوست عمران خان تھے۔

اس دور میں جب ن لیگ کے لوگ ایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر رہے تھے تو ایاز صادق نے ن لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیوں کیا اور پھر سنہ 2002 میں باقی ممبران کی طرح اس کو چھوڑ کر کیوں نہ گئے؟صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’اس وقت ن لیگ پر برا وقت تھا اور اس کو انتخابات کے لیے موزوں امیدواروں کی تلاش تھی جو اسے مشکل سے مل رہے تھے، ایسے میں سردار ایاز صادق ان کے لیے بہترین امیدوار تھے۔‘
ایاز صادق نے عمران خان کو لاہور کی اس نشست سے شکست دی اور پہلی مرتبہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہنچے، دوسری جانب عمران خان بھی پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، انھوں نے میانوالی کی نشست سے کامیابی حاصل کی،صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’ایاز صادق کو اندازہ تھا کہ اگر وہ پارلیمانی سیاست میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کا مستقبل ن لیگ جیسی جماعت کے ساتھ ہی ہو سکتا تھا۔‘
صحافی ماجد نظامی کے مطابق اس انتخاب میں ایاز صادق صوبائی اسمبلی کی نشست بھی جیت گئے تھے جو بعد میں انھوں نے خالی کر دی۔ اس نشست پر ضمنی انتخاب میں ق لیگ کے عبدالعلیم خان نے کامیابی حاصل کی جو قومی اسمبلی کی نسشت پاکستان عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری سے ہار گئے تھے۔
 
جیت کا تسلسل اور سپیکر قومی اسمبلی
ایاز صادق سنہ 2008 کے عام انتخابات میں بھی کامیاب ہوئے تاہم ان کی جماعت مرکز میں حکومت نہ بنا سکی تاہم پانچ برس بعد جب وہ دوبارہ جیت کر قومی اسمبلی پہنچے تو ان کی جماعت ن لیگ مرکز میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی،صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ایاز صادق خود بھی ایک اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’ان کی شادی بھی لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سردار محمد اقبال کی صاحبزادی سے ہوئی۔‘
ایاز صادق نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی جہاں عمران خان کے علاوہ چوہدری نثار علی خان، پرویز خٹک، سردار اختر مینگل اور ذوالفقار مگسی ان کے ہم جماعتوں میں شامل رہے،سنہ 2013 کے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر سردار ایاز صادق نے لاہور کے اسی حلقے سے عمران خان کو شکست دی تاہم انتخابات کے بعد عمران خان نے جن نشستوں پر دھاندلی ہونے کا الزام عائد کیا ان میں یہ نشست بھی شامل تھی۔
تاہم ن لیگ نے ایاز صادق کو سپیکر قومی اسمبلی کا امیدوار مقرر کیا اور وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ یوں وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے سپیکر مقرر ہوئے،ان کے خلاف عمران خان کی الیکشن کمیشن کی اپیل الیکشن ٹریبیونل کے پاس چلی گئی تو عمران خان نے ان کے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔
قومی اسمبلی سے چھٹی اور واپسی
الیکشن ٹریبیونل نے ایاز صادق کے خلاف عمران خان کی ’دھاندلی سے جیتنے‘ کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے ان کو قومی اسمبلی کی نشست سے فارغ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی سپیکر کا عہدہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا،صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ایاز صادق نے اس کے بعد الیکشن ٹریبیونل کے اس فیصلے کو چیلنچ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ’انھوں نے خود سے کہا کہ وہ دوبارہ ضمنی انتخاب میں جانا چاہیں گے اور اگر وہ حق پر ہوئے تو جیت کر واپس آئیں گے ورنہ جو فیصلہ عوام کو ہوا انھیں قبول ہو گا۔‘
ایاز صادق نے لاہور کی اسی نشست سے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کے مدِ مقابل عبدالعلیم خان تھے جو اس مرتبہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے تاہم انھیں ایاز صادق کے ہاتھوں شکست ہوئی،ایک مرتبہ پھر ایاز صادق منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ ان کی جماعت نے ایک مرتبہ پھر ان ہی کو سپیکر کا امیدوار مقرر کیا۔ حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ان کی حمایت کی۔ یوں وہ ایک ہی دور میں دو مرتبہ سپیکر بننے والے پہلے امیدوار بن گئے۔
صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’ایاز صادق دھیمے لہجے میں بات کرنے والے انتہائی سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں، وہ معاملہ فہمی میں بھی خاصی مہارت رکھتے ہیں، اسی لیے آپ دیکھیں گے سپیکر ہوتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتیں بھی ان کا احترام کرتی تھیں،وہ کہتے ہیں کہ ایاز صادق نے بہت قلیل وقت میں ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کا اعتماد حاصل کیا، ’وہ ایسے شخص ہیں جو ن لیگ کے اندر بھی نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے لیے یکساں قابلِ اعتماد ہیں۔‘
ایاز صادق سنہ 2018 کے انتخابات میں بھی لاہور سے کامیاب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے۔ سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ حالیہ انتخابات کے بعد بھی ن لیگ کی طرف سے دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماوں سے رابطوں کی ذمہ داری نواز شریف نے سردار ایاز صادق کو دی تھی۔
ابھینندن کی رہائی سے متعلق بیان پر تنازعہ
سنہ 2020 میں عمران خان کے دورِ حکومت میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک فضائی جھڑپ میں پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کا طیارہ مار گرایا، اس طیارے کے پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کر لیا گیا،عمران خان کی حکومت نے خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے ہی دن انھیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ کرنے سے پہلے سیاسی رہنماوں کی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کی گئی جس میں اس وقت کے آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔
تاہم اس معاملے پر اگلے روز قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے بھی ایک بیان دیا، اس بیان کو لے کر انڈیا اور پاکستان دونوں میں کافی بحث چھڑ گئی،سردار ایاز صادق کے حوالے سے کہا گیا کہ انھوں نے بیان میں کہا کہ ’وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب پارلیمانی لیڈرز کے پاس آئے تو ان کے ماتھے پر پسینہ تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں ،وہ منت کر رہے تھے کہ ابھینندن کو رہا کر دیا جائے۔‘
اس پر اس وقت پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھی ایک پریس کانفرنس کی اور ان کے بیان کو ’انتہائی غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا تاہم ایاز صادق نے جلد ہی ایک وضاحتی بیان جاری کیا،اس میں انھوں نے کہا کہ ان کے بیان کو ’انڈین میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا،ایاز صادق حالیہ انتخابات کے بعد عام انتخابات کے نتیجے میں پانچویں مرتبہ منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچے ہیں اور دو ادوار میں تیسری بار وہ سپیکر قومی اسمبلی بنے ہیں۔

مزیدخبریں