جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کردی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری)سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کردی،عدالت نے اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کردی،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟۔
فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ کر رہا ہے،دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ابصار عالم نے اپنے بیان میں وزارت دفاع کے ملازم پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ ان الزامات کے بعد بھی نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا ابصار عالم کے لگائے الزامات دیکھے ہیں، ہم نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا ابصارعالم فیض آباد دھرنے کے وقت کیا تھے؟ اٹارجی جنرل نے جواب دیا فیض آباد دھرنے کے وقت ابصارعالم چیئرمین پیمرا تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا وفاقی حکومت نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب بنائی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 19 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے کمیٹی تشکیل دی، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر رپورٹ دے گی۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کیلئے قائم فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر سوالات اٹھا دیئے،چیف جسٹس نے پوچھا ابھی تک کمیٹی نے کوئی کام نہیں کیا؟ جس پر منصور عثمان نے بتایا کہ 26 اکتوبر کو کمیٹی اجلاس ہو چکا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کس قانون کے تحت بنی؟ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے کہا کمیٹی بناکر صرف رپورٹس آتی رہیں گی، ہونا کچھ نہیں ہے۔
’حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ سمیت سب کہہ رہے ہیں کہ فیض آباد دھرنا فیصلہ ٹھیک ہے، حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، کیا کمیٹی نے جوٹی او آر بنائے ہیں ان میں سب ذمہ داران سے حساب لیا جائے گا، پورے ملک کو ایک جماعت نے یرغمال بنائے رکھا، بیرون ملک سے ایک شخص امپورٹ کرکے ملک کو یرغمال بنایا گیا اور وہ واپس لوٹ گیا، حکومت میں تحقیقات کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے، بچوں سے پوچھیں تو وہ بھی آپ سے بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کیا اب ریاستی امور آئین کے مطابق چلائے جا رہے ہیں؟ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کمیٹی کے ٹی او آرز سے تو لگتا ہے آپ نے سب کو بری کر دیا، دھرنا کیس میں عدالت نے پوری ہسٹری دے دی، ہم نے پوچھا تھا دھرنے کا ذمہ دار کون تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا حکومت نے کمیٹی کا ایک بھی ٹی او آر درست نہیں بنایا، حکومت چاہتی ہے سب کو ذمہ دار ٹھہرا کر کسی کیخلاف کاروائی نہ ہو، اربوں کا نقصان ہوا مگر حکومت کو پرواہ ہی نہیں، کمیٹی رپورٹ کا کیا ہوگا؟ کیا کمیٹی رپورٹ کابینہ میں پیش ہوگی؟ کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوگی تاکہ کارروائی ہوسکے؟
انہوں نے مزید کہا ہم کمیٹی رپورٹ کا جائزہ نہیں لیں گے، عدالت آپ کا کام کیوں کرے؟ فیض آباد دھرنا فیصلے پرعملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کمیٹی کا حصہ ہیں، وہ کیا کام کریں گے؟ کتنے پل گرائے گئے؟کتنا نقصان ہوا؟ یہ سب کون دیکھے گا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا حکومتی کمیٹی کے ٹی او آرسے تو سب بری ہو جائیں گے، معذرت کے ساتھ لیکن یہ کمیٹی قابل قبول نہیں ہے، عدالت اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے خوش نہیں ہے، حکومت کی بنائی گئی کمیٹی غیرقانونی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا حکومت نے کمیٹی صرف تحقیقات کیلئے بنائی ہے، کمیٹی اپنی رپورٹ کیساتھ سفارشات دے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ملک نہیں چلایا جاسکتا، ہمیں بتائیں کون سے رولزآف بزنس اورکس قانون کے تحت کمیٹی بنائی گئی، جس طرح حکومت معاملات چلانا چاہ رہی ہےایسے نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالت یہ قراردے گی کہ حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں کچھ نہیں کیا، ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹرمائنڈ کون تھا؟ 6 فروری 2019 سے آج تک فیصلے پرعملدرآمد نہیں ہوا، اس طرح تو یہاں ہر کوئی کہے گا میں جو بھی کروں مجھےکوئی پوچھ نہیں سکتا، حکومت سیدھا سیدھا کہہ دے کہ ہم کام نہیں کریں گے۔
منصور عثمان نے کہا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن بنائیں گے، جیسے عدالت حکم کرے گی اس پر عمل ہو گا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آئین پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومتی کمیشن کی تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں۔
جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تو لوگ سبق لیں گے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ماضی سے سیکھ کر حکومت ایسا اقدام کرےکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں، جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تو لوگ سبق لیں گے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کیا حکومت واقعی فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کرنا چاہتی ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہو جائے تو فیصلے پر عمل نہیں ہو گا؟ کیا حکومت نے کینیڈین حکومت سے رابطہ کیا تھا؟ کیا لوگ کینیڈا سے یہاں آکر دھرنے دیں کوئی نہیں پوچھے گا؟ کیا پاکستانی کینیڈا جاکر اس طرح دھرنے دے سکتے ہیں؟ دوسرے ممالک تو اپنے ایک ایک شہری کی حفاظت کرتے ہیں، پاکستان میں کوئی نہیں پوچھتا، چاہے جو کرو، کبھی دبئی چلے جاؤ، کبھی دوسرے ملک، ہمارے لوگ ملک اور دین دونوں کو بدنام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کسی کو اس ملک کی پرواہ نہیں ہے، یہ ملک صرف اشرافیہ کیلئے نہیں ہے، 70 سال سے ملک میں اشرافیہ کا قبضہ ہے، ایک شخص کو امپورٹ کرنےکا مقصدکیا اس وقت کی حکومت کوبرطرف کرنا تھا؟ کیا دوبارہ ایک شخص کو امپورٹ کرکے مستقبل میں بھی خدمات لی جائیں گی؟ کیا کینیڈا سے آئے اس شخص نے اپنے ٹکٹ کی ادائیگی خود کی تھی؟ ممکن ہے کمیٹی کی تحقیقات سے یہ بھی تعین ہو جائے کہ پیمرا، الیکشن کمیشن اس وقت آزاد نہیں تھے۔
عدالت نے گزشتہ سماعت پر تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کیا تھا۔
چیئرمین پیمرا کی عدالت پیشی
چیئرمین پیمرا سلیم بیگ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے چیئر مین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سابق چیئرمین نے ایک رپورٹ جمع کرائی جس پر چیئر مین پیمرا نے جواب دیا کہ میں نے رپورٹ پڑھی ہے جو ان کے ساتھ ہوا انھوں نے رپورٹ میں لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپکے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا؟ آپ عدالتی کارروائی کو سنجیدہ لیں، آپ کے وکلاء کو تو رپورٹ کا پتا ہی نہیں، چیئر مین پیمرا نے جواب دیا کہ انفارمیشن منسٹری سے پیمرا آیا تھا، ابصار عالم نے جو کچھ کہا مجھے ان حقائق کا علم نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے آفس میں کوئی پرانی فائل میں یہ سب لکھا ہو جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ریکارڈ چیک ہو سکتا ہے مگر جو ابصار عالم کیساتھ ذاتی طور پر ہوا اس کا علم نہیں، میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ٹی وی چینلز کے بند کرنے کا معاملہ
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سلیم بیگ صاحب کیا آپ نے 2019 سے متعلق فیصلے پر کچھ کیا، کیا ٹی وی چینلز کو ابھی بھی بند کیا جاتا ہے؟ چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ نہیں سر ابھی ایسا کوئی کام نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی، دھرنا کیس میں عدالتی احکامات پر عمل کیا یا اوپر سے حکم کا انتظار ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 5 سال سے آپ چیئرمین ہیں آپ نے عدالتی حکم پر کتنا عمل کیا جس پر پیمرا کے وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہوگیا ہے۔
چیئرمین پیمرا کی تنخواہ اور ذمہ داری
چیف جسٹس پاکستان نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا پیمرا ڈمی آرگنائزیشن ہے، یہ مذاق کی بات نہیں ہے آپ کس چیز کے چیئرمین ہیں؟ آپ کو تنخواہ کون دیتا ہے؟آپکی تنخواہ کتنی ہے کون دیتا ہے؟ چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ساڑھے چار لاکھ تنخواہ ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تنخواہ حکومت نہیں عوام دیتی ہے، سپریم کورٹ نے جب فیصلہ دیا آپ اس وقت چیئرمین تھے، آپ نے غلط بیانی کیوں کی کہ میں بعد میں چیئرمین بنا، کیا آپ کو ہمارا فیصلہ پسند نہیں؟ آپ کو فیصلہ اچھا نہیں لگتا تو توہین عدالت کا نوٹس کر دیتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کتنے کیبل آپریٹرز کیخلاف پیمرا نے ایکشن لیا تھا؟ آپ نے خود کہا کوئی پریشر نہیں پھر عدالتی حکم پر عمل کیوں نہ ہوا؟