معروف مزاحیہ اداکار چارلی چپلن اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک غریب گھر میں پیدا ہوئے ہمارے پاس کچھ جمع پونجی تھی لیکن اتنی جگہ نہیں تھی کہ گھر میں ایک کتا بھی پال سکتے اس لیے ہم گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ رات کو سب باری باری بھونکیں گے تاکہ ارد گرد کے لوگوں کو لگے کہ ان کے پاس بھی کتا ہے ،کتا رکھنا یورپ میں سٹیٹس سمبل ہے، گورے گوریاں کتوں کے ہزار نخرے اٹھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب انہیں گھمانے کے لیے باہر لیجاتے ہیں تو اس کی غلاظت کو بھی اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہیں، لیکن ہمارے مذہب اورمعاشرے میں کتا ایک نجس جانور ہے جسے گھر میں رکھنے کی ممانعت ہے لیکن حفاظت کی غرض سے اسے رکھنا وہ بھی گھر سے باہر جائز قرار دیا گیا ، البتہ شوقیہ کتے رکھنا اور پالنا منع فرمایا گیا ہے ۔یہ میں آج کتوں پر کیوں لکھ رہا ہوں ؟ مجھے خود بھی سمجھ نہیں آرہا لیکن دو روز سے سوشل میڈیا پر جو" کتیا کتیا " ہورہی ہے اس نے کتوں کے متعلق میری معلومات میں بے پناہ اضافہ کیا مثلاً یہ کہ آوارہ کتے پاکستان میں ہوں یا لندن، امریکہ میں راہ چلتے شرفاء پر بھونکتے ہیں ،ایک مضمون نظر سے گذرا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ فرشتوں کو دیکھ کر "کتے"بھونکتے ہیں، (یہ مکمل غیر سیاسی جملہ ہے کسی واقعہ سے اس بات کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی ) ایک صاحب یہ دور کی کوڑی لائے کہ کتوں کو غیر مرعی مخلوق نظر آتی ہے اور وہ اُن کو دیکھ سُن سکتی ہیں، اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہ کتے بھونکنے کے لیے بغیر کسی وجہ کی بھی بھونکتے نظر آتے ہیں ظاہر ہے کتوں کے پاس سوشل میڈیا جیسی کوئی سہولت نہیں ہوتی،اس لیے وہ دیوار کی جانب منہ کرکے یا راہ چلتے لوگوں پر بھونک کر اپنے کتے ہونے کی تصدیق کر رہے ہوتے ہیں ۔
ہمارے دوست اظہر تھراج نے تو ہماری توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی کہ کتوں پر تو شاعری بھی کی گئی انہوں نے فیض احمد فیض کی ایک نظم "کتے" کا حوالہ بھی دیا ،اپنے مضمون میں ایک نقطہ اور بھی تھا جسے وہ بھول گئے کہ سابق صدر اور مارشل لاءایڈمنسٹریٹر پرویز مشرف مرحوم اور بانی پی ٹی آئی میں ایک رشتہ ’کتے‘ کا بھی تھا پرویز مشرف نے اپنا ایک کتا عمران خان کو گفٹ کیا تھا جس کا نام عمران خان نے "شیرو" رکھا تھا ظاہر ہے مشرف بھی کتوں کے شوقین تھے اپنے کتے کو کبھی بھولے نہیں اس ضمن میں جو واقعہ صحافی سلیم صافی نے تحریر کیا ہے وہ کچھ یوں ہے ۔
"ان (مشرف) سے پوچھا کہ یہ عمران خان کے کتے کا کیا معاملہ ہے؟کیا واقعی آپ نے ان کو کتے کا تحفہ دیا ہوا ہے تو جم صاحب نے کہا کہ ہاں ان کے پاس میرا ہی کتا ہے اور میں نے ہی دیا ہوا ہے۔ اس پر میں نے سوال کیا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ وہ ہمایوں گوہر نے انہیں دیا ہوا ہے تو جنرل صاحب نے کہا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ کتا میرا تھا تو ہمایوں گوہر نے کیسے انہیں دیا؟ پھر انہوں نے ساتھ بیٹھے ہوئے جم صاحب کو اشارہ کیا کہ سلیم! یہ عمران خان کے بڑے دوست ہیں ان سے پوچھ لیں کہ کتا میں نے دیا ہے یا نہیں؟
جم صاحب نے اثبات میں سرہلایا تو مشرف صاحب کہنے لگے کہ وہ بہت اچھا کتا ہے اور عمران خان نے اس کا نام بھی بڑا اچھا رکھا ہے لیکن میں بھول گیا ہوں۔ اس پر جنرل صاحب نے انہیں یاد دلایا کہ جی سر، اس کا نام عمران خان نے شیرو رکھا ہے۔ اس پر پرویز مشرف نے کہا کہ اب توماشاء اللہ شیرو کافی بڑا ہوگیا ہے ۔پانچ گھنٹے کی اس طویل مگر دلچسپ نشست سے فارغ ہوکر ہم رخصت ہوئے تو ان کے فلیٹ سے متصل برج خلیفہ کے بلند وبالا ٹاور کو دیکھتے ہوئے میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ شیرو بھی بڑا ہو گیا لیکن افسوس کہ شیرو دینے والا اور شیرو لینے والا سیاسی سوچ کے حوالے سے اب بھی بڑے نہیں ہوسکے، نہ جانے وہ کب بڑے ہوں گے؟"
دیکھیں میں نے لکھا تھا کہ موضوع ہی جب کتا ہو تو کتیا کتیا تو ہوگئی اب دیکھیں نا لندن میں تو آوارہ کتے ملتے ہیں نہیں کہ وہاں کتوں کو بھی نیشنلٹی حاصل ہے یعنی انہیں انسان کے برابر اور کسی طرح انسانوں سے بھی زیادہ حقوق حاصل ہیں ، اب چارلی چپلن والا زمانہ تو ہے نہیں کہ انسانوں کو کتے کی طرح بھونکنا پڑے اس کام کے لیے اب ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو آپ کو کتے کرائے پر مہیا کرتی ہیں آپ ان کتوں سے بھونکنے کا کام لیں یا شیخی مارنے کا ان کے ذریعے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائیں اور اپنے کتوں کی تصویریں اپ لوڈ کریں بھونکنے کی ، بھاگنے کی کمپنی کو کوئی اعتراض نا ہوگا آپ شائد اسے کوئی سیاسی مضمون سمجھ رہے ہوں نہیں بھائی کمپنی موجود ہے یہاں اسکا آئی پی ایڈریس کاپی کررہا ہوں
بارو ڈوگی نامی اس کمپنی کے پاس مردانہ زنانہ ہر عمر کے کتے اور کتیا دستیاب ہیں، آپ ایک کتا بھی لے سکتے ہیں اور ساری فیملی کو بھی کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں اپنی ضرورت پوری ہوجائے تو کتے بمعہ پاونڈز میں کرایہ کمپنی کو ادا کردیں ، اس طرح بہت سارے بیروزگار تارکین وطن کتوں کا روزگار لگ گیا ہے چند دن چھیچھڑے بھی اچھے کھانے کو مل جاتے ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر