(آصف عالم) شاہ نواز اور سارہ کی شادی کو پورے 3 ماہ بھی نہیں ہوئے کہ آپس میں لڑائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ 20 جولائی سے شروع ہونے والی دونوں کی واٹس ایپ چیٹ کے مطابق شاہ نواز نے اپنی بیوی سارہ کا نام اپنے فون میں "Sara Wifey Dear " کے نام سے سیو کررکھا تھا جبکہ اس کا عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ واٹس چیٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ شاہ نواز اکثر سارہ کےساتھ بدسلوکی کرتا تھااور اسے گالیاں بھی دیتا تھا جس پر اس کی بیوی سارہ اس سے پوچھتی تھی کہ مجھے کیوں اتنے دکھ دیتے ہو؟
شاہ نواز معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کو بھی شوق سے سنتا تھا اور سارہ کو بھی واٹس ایپ پر ان کی ویڈیوز بھیجتا تھاجبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بھی سپورٹر اور مداح تھا۔ شاہ نواز اکثر سارہ کا موبائل نمبر واٹس ایپ پر بلاک کر دیتا تھا اور اگلے دن دوبارہ اَن بلاک کردیتا تھا جس سے سارہ مزید ڈیپریشن میں چلی گئی تھی۔ واٹس ایپ چیٹ سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ شاہ نواز مختلف حیلوں بہانوں سے سارہ سے پیسے منگوانے کا عادی بھی تھا۔ دونوں کے درمیان اصل جھگڑا تب شروع ہوا جب سارہ نے اپنے والدین کو شاہ نواز کے ساتھ شادی، اور ان کی آپس کی لڑائیوں کے بارے میں بتایا۔ سارہ کے والدین نے شاہ نواز سے رخصتی کی رسم کرنے کا کہا جس پر شاہ نواز اور سارہ کے والدین کے درمیان بھی جھگڑا ہوا۔
قتل سے قبل شاہ نواز نے سارہ کو یہ کہہ کر اسلام آباد بلایا کہ ہم اپنے درمیان کی لڑائیاں ختم کرتے ہیں اور مل کر ایک اچھی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بعد سارہ اسلام آباد پہنچی تاہم اسلام آباد پہنچنے پر شاہ نواز اور سارہ میں ایک بار پھر لڑائی ہوئی جو طول پکڑتی چلی گئی اور سارہ کے بہیمانہ قتل پر منتج ہوئی۔ شاہ نواز نے سارہ کو ورزش کرنےوالے ڈمبیل مار مار قتل کردیا اور اس کی لاش کو واش روم کے باتھ ٹب چھپادیا۔ جس وقت پولیس شاہ نواز کو گرفتار کرنے شہزاد ٹاؤن کے فارم ہاؤس پہنچی تو شاہ نواز کمرے میں بیوی کے قتل کے نشانات مٹانے میں مصروف تھا۔
ضرور پڑھیں :سارہ شاہنواز کو کب اور کیسے قتل کیا گیا ، اہم معلومات سامنے آگئیں
شاہ نواز کے والد سابق رکن اسمبلی اور سینیئر صحافی ایاز امیر کے مطابق شاہ نواز دراصل ایک broken family کا شاخسانہ تھا۔ ایاز امیر کو اپنے بیٹے کی بری عادتوں کا بھی پتہ تھا اور اسی لئے بقول ان کے انہوں نے اپنی بہو سارہ کو کسی بھی مد میں باہر سے پیسے بھیجنے سے منع کیا تھا۔ ایاز امیر کے ہی مطابق شاہنواز مختلف قسم کے نشوں کی لت میں ملوث تھا جس میں شراب، چرس، گردا اور خواب آور گولیاں بھی شامل تھی۔ ایاز امیر نے ہی اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ شاہ نواز کوئی کام نہیں کرتا تھا اور صرف عیاشیاں کرتا تھا جس کا خرچ ایازامیر ہی اٹھاتے تھے۔ سارہ انعام سے قبل شاہ نواز کی دو شادیاں پہلےبھی ہوچکی تھیں اور ایاز امیر کے مطابق ان کی دونوں بہؤیں اعلیٰ تعلیم یافتہ، سلجھی ہوئی اور ذہین تھیں۔ پہلی شادی تو محض آٹھ روز میں ختم ہوگئی تھی۔
سینیئر صحافی خود بھی متعدد ناکام شادیاں کرچکے ہیں۔ ایاز امیر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ معاملہ اگر قتل کے بجائے لڑائی جھگڑے، مار پیٹ حتیٰ کہ گولی چل جانے کا بھی ہوتا تو وہ یقیناً کوشش کرتے کہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے معاملے کو دبالیا جائے اور نشانات مٹادیئے جائیں مگر شاہ نواز سے ایک ایسا عمل ہوچکا تھا جس کی تلافی ممکن نہیں تھی۔
مسلسل نشے کے استعمال سے شاہنواز کی ذہنی حالت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس جب فارم ہاؤس پر پہنچی تو اس نے کہا کہ گھر میں ٹرمینیٹر گھس آئے ہیں۔
ہارورڈ لا یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اسامہ صدیق کا کہنا ہے کہ سابق رکن اسمبلی، سینیئر صحافی اور کالم نویس ایاز امیر جو قاتل کے باپ بھی ہیں، کی طرف سے بیٹے کو نشئی یا دماغی طور پر غیرمتوازن ثابت کرنے کی کوشش دراصل اس کو بچانے کے لئے معاونت ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف جرم کی سفاکی اور قاتل کی مجرمانہ نیت سے توجہ ہٹانا ہے بلکہ اس ظلم کو قتل عمد کے بجائے کسی نچلے درجے کا جرم قرار دلانا بھی ہے۔ ظاہری طور پر قاتل بیٹے کی کردار کشی کرکے وہ دراصل اس کے بچاؤ کی راہ ہموار کررہے ہیں جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ ایاز امیر کی طرف سے کی جانے والی کوشش بالکل ایسی ہی ہے جیسے نورمقدم قتل کیس کے مجرم کے لئے کی جارہی ہیں۔ دونوں کیسز میں قاتل کو بچانے کی کوششوں میں سرِ مو کوئی فرق نہیں۔