جلسے ختم،پی ٹی آئی سڑکوں پر،فائنل شو ڈی چوک پر ہوگا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)اہم آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان کا ساتھ حکومت کیلئے ناگزیر ہے،مولانا فضل الرحمان اہم آئینی ترامیم پر کبھی ایسا بیان دے دیتے ہیں جس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے لیکن جیسے ہی کچھ وقت گزرتا ہے مولانا فضلا الرحمان پھر اپنا بیان تبدیل کردیتے ہیں جس سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب اُن کا جھکاؤ حکومت کی طرف ہے۔یعنی مولانا فضل الرحمان دانشمندی سے سیاسی چال چل رہے ہیں ۔وہ اپنے سیاسی کارڈز کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔اُن کی اگلی چال کیا ہوگی نہ حکومت سمجھ سکتی ہے نہ دیگر اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھ پارہی ہیں ۔اب مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر حکومت کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس جعلی قسم کی پارلیمنٹ سے اتنی بڑی آئینی ترمیم کرنا ناانصافی ہے۔حکمران سیاسی مقاصد کیلئے آئینی ترامیم کی طرف جارہےہیں۔ یہ آئینی ترامیم کے ذریعے مارشل لا لگا رہے تھے۔جس کو ہم نے سپورٹ نہیں کیا ۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب ایک طرف مولانا فضل الرحمان حکومت کو للکار رہے ہیں تو وہیں وہ پی ٹی آئی کی طرز سیاست پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں ۔خاص طور پر علی امین گنڈاپور جس طرح کی زبان استعامل کر رہے ہیں اُس پر مولانا تنقید کر رہے ہیں جس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان شاید مستقبل میں پی ٹی آئی کی جارحانہ طرز سیاست سے پیچھا چھڑانے کیلئے حکومت کی صفوں میں جا بیٹھیں ۔لیکن ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا۔ دوسری جانب حکومتی اتحادیوں کا آئینی ترامیم کے ھوالے سے مولانا فضل الرحمان کے کردار کو لے کر الگ الگ نظریہ سامنےآ رہا ہے۔پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل ممین کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس نمبر پورے ہیں، جب چاہیں ترمیم کرسکتے ہیں۔
یعنی شرجیل میمن کی گفتگو کو دیکھیں تو وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان ساتھ دیں یا نہ دیں ترمیم کیلئے حکومت کے پاس نمبر پورے ہیں۔لیکن اگر ایسا ہے تو پھر رانا ثنا اللہ یہ بات کیوں کر رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کیلئے مولانا فضل الرحمان کو آن بورڈ لینا ضروری ہے ۔ رانا ثنا اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آئینی ترمیم کیلئے مولانا فضل الرحمان کو چھوڑ کر آئینی ترمیم کیلئے نمبر پورے کرنا درست نہ ہوگا ۔
اب رانا ثنا اللہ تو اور ہی کہانی بتا رہے ہیں ۔اگر حکومت کے پاس نمبر پورے ہوتے تو حکومت فوری طور پر آئینی ترامیم لے آتی۔اگر شرجیل میمن کی بات کو درست مان لیا جائے کہ حکومت کے پاس نمبرز پورے ہیں تو پھر ترامیم لانے میں دیر کیوں کی جارہی ہے؟اگر حکومت کے پاس نمبرز پورے ہوتے تو پھر طارق فضل چودہری پلان بی کی ابت کیوں کر رہے ہیں ؟ن لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری کہتے ہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمان نے ہمیں انکار کیا تو پلان بی پر عمل کریں گے،اور پلان بی مولانا کے ووٹوں کا محتاج نہیں۔
اب جہاں تک آئینی ترامیم منظور کرانے کیلئے پلان بی کی بات ہے تو ممکنہ طور پر حکومت کے پاس پلان بی یہ ہوسکتا ہے کہ اگر آرٹیکل 63 اے پر عدالت یہ فیصلہ سنا دے کہ فلور کراسنگ ہوسکتی ہے،اور کسی دوسری جماعت کا رکن اپنے پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ووٹ ڈال سکتا ہے تو اُس صورت میں حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔اور یوں دیگر جماعتوں کے اراکین کےذ ریعے حکومت مطلوبہ نتائج حاصل کرلے گی۔لیکن اِس کیلئے ابھی دہلی دور ہے۔آرٹیکل 63 اے پر حکومت کب فیصلہ دے یہ کہنا مشکل ہے۔حکومت کو دس اکتوبر تک ہر صورت اہم آئینی ترامیم کروانی ہے۔
اب حکومت آئینی ترامیم کرسکتی ہے یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔بہرحال بلاول بھٹو نے آج مٰڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالتوں پر اتفاق پیدا ہورہا ہے۔پیپلزپارٹی وفاق کے ساتھ صوبائی آئینی عدالت بھی چاہتی ہے ۔پی ٹی آئی کیا چاہ رہی ہے ؟