سپریم کورٹ میں ہلچل،جج آمنے سامنے،نتائج کیا ہوں گے؟

Oct 01, 2024 | 09:58:AM

Read more!

(24 نیوز)الیکشن ٹربیونل کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ میں اختیارات کی طویل جنگ چلی ۔جو فی الحال الیکشن کمیشن جیتتا ہوا نظر آرہا ہے ۔کیونکہ آج سپریم کورٹ نے اِس کیس میں اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی درخواست کومنظور کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے جج نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کی ملاقات نہ ہونے کو مدنظر نہیں رکھا، اگر ملاقات نہ ہونا مدنظر رکھتے تو ایسا فیصلہ نہ کیا جاتا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تنازع جب آئینی ادارے سے متعلق ہو تو محتاط رویہ اپنانا چاہیے، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر کسی فورم پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب کیس کا پس منظر دیکھیں تو الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے 8 الیکشن ٹریبونلز تشکیل دینے کا فیصلہ دیا تھا،جس پر الیکشن کمیشن نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکش کمیشن کا اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ کا ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے ۔بہرحال سپریم کورٹ نے تو الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کو آپس میں مشورے کے ساتھ الیکشن ٹربیونل تشکیل دینے کا کہا تھا لیکن دونوں آئینی اداروں میں اتفاق نہیں ہوسکا۔کیونکہ الیکشن کمیشن اِس بات پر اصرار کرتا رہا کہ الیکشن ٹربیونل بنانا اِس کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ آئین نے جو اختیارات انھیں دیے ہیں وہ وہی استعمال کرے گا کسی اور کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اب اگر ہم آئین کو دیکھیں تو آرٹیکل 219میں واضح لکھا ہوا ہے کہ انتخابات کے بعد انتخابی عذرداریوں کے لیے الیکشن ٹربیونل بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ ۔آئین میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک اٹل اصول ہے کہ قوانین آئین سے متصادم نہیں بنائے جا سکتے۔

اگر کوئی اختیار آئین نے کسی کو دیا ہے تو آئینی ترمیم کے بغیر یہ اختیار اس سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ یعنی قوانین کو آئین کے تابع رکھا گیا ہے۔ اب ا اِس کے علاوہ لیکشن ایکٹ میں الیکشن ٹربیونل بنانے کے طریقہ کار کی مزید وضاحت بھی کی گئی ہے۔الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 140 میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام الیکشن ٹربیونل بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے کسی سرونگ جج کو الیکشن ٹربیونل میں تعینات کرے گا اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کرے گا۔ لیکن تعیناتی کا حتمی اختیار الیکشن کمیشن کو ہی دیا گیا ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ اگر ہائی کورٹ کا حاضر سروس جج الیکشن ٹربیونل میں تعینات کیا جائے گا تو اس تعیناتی کا اختیار چیف جسٹس ہائی کورٹ کے پاس ہوگا۔ آئین میں مشاورت کا کہا گیا ہے لیکن یہ نہیں لکھا گیا کہ مشاورت میں اتفاق رائے ضروری ہے۔ کیونکہ آئین میں آخری اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ اسی لیے الیکشن ایکٹ بھی آئین کے مطابق ہی بنایا گیا ہے۔ یہاں ریٹائرڈ ججز کو بھی لگانے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔اب سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے بعد ظاہر ہے حکومت کو فائدہ پنچا ہے۔کیونکہ پی ٹی آئی تو پہلے ہی یہ الزام حکومت اور الیکشن کمیشن پر لگا رہی ہے کہ وہ الیکشن ٹربیونل پر بدنیتی دکھا رہے ہیں تاکہ حلقے نہ کھل سکیں ۔شعیب شاہین سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے رد عمل میں کہتے ہیں کہ الیکشن ٹربیونل اور الیکشن کمیشن فراڈ اور کرپٹ پریکٹسز میِ ملوث ہے۔ہم ریویو میں جائیں گے،جبکہ بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے۔

مزیدخبریں