(24نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کی، پانچ رکنی بنچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے,اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں کل کے بعد کیا ہوا؟ جسٹس منیب اختر کو درخواست کی گئی کہ بنچ میں آئیں، جسٹس منیب نے دوبارہ خط لکھ دیاجس میں اپناپرانا مؤقف دہرایا ہے، میں نے کمیٹی کو جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کی تجویز دی لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کمیٹی اور بنچ دونوں میں شمولیت سے انکار کیا، اس کے بعد ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ دوسرے بنچز کو ڈسٹرب نہ کرتے ہوئے جسٹس نعیم افغان کو لارجر بنچ میں شامل کیا ہے، اب سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتا، اب لارجر بنچ مکمل ہے کارروائی شروع کی جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ میں ایک اعتراض اٹھانا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ اپنی نشست پر واپس چلے جائیں، ہم اپ کو بعد میں سنیں گے۔
کارروائی جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے آج کے اجلاس کے منٹس بھی جاری کئے گئے ہیں، کمیٹی کے منٹس سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کر دیئے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بنچ پر اعتراض اٹھایا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو پہلے دلائل دینے کا حق نہیں ہے، پہلے جس نے نظر ثانی درخواست دی ہے اس کو دلائل دینے کا حق ہے، روسٹرم پر آپ کی ہی بار کے منتخب صدر کھڑے ہیں، کبھی تو جمہوریت پر چل کر دیکھیں۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کر دیا، شہزاد شوکت نے کیس کا پس منظر عدالت کے سامنے بیان کیا اور کہا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 3/184 کی درخواستیں بھی تھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس پر رائے اور 3/184 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے، صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ کیا اس وقت عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی آرڈر جاری کیا؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدراتی ریفرنس پر دی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہو سکتی۔
عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ اس وقت صدر کون تھا؟ جس پر شہزاد شوکت نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت عارف علوی صدر تھے،چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ وہی حکومت بطور حکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے آرٹیکل 63 اے عدالت میں پڑھ کر سنا دیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر کی جانب سے قانونی سوالات کیا اٹھائے گئے تھے؟،شہزاد شوکت نے کہا کہ صدر پاکستان نے ریفرنس میں چار سوالات اٹھائے تھے، آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، عدالت نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے اہم ہیں، عدالت نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟ سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کیلئے کینسر کا لفظ لکھا گیا، کینسر لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا، کیا فیصلے میں منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا بھی لکھا گیا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا حکم فیصلے میں نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں تحریک عدم اعتماد، وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی کا انتخاب اور منی بل کی وضاحت موجود ہے، جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر ارکان نااہل ہو گا، فیصلہ تو اس معاملےکو جماعت کے سربراہ پر چھوڑ رہا ہے، جماعت کے سربراہ کی مرضی ہے کہ چاہے تو نااہل نہ کرے، جماعت کا سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی نہ تو کیا ہو گا جس پر شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا، یعنی آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہو گیا، شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کیا عدالت نے فیصلے میں آرٹیکل 95 پر کچھ کہا، کسی جماعت کا رکن پارٹی سربراہ کو پسند نہ کریں اور ہٹنا چاہیں تو کیا کیا جائےگا، اگر اراکین کا ووٹ تک گنا ہی نہیں جاسکتا تو کیا کیا جائےگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں انہی دنوں اپنی ہی جماعت کے روز اپنے وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد لائے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ برطانیہ میں حال ہی میں ایک ہی جماعت نے اپنے وزیراعظم تبدیل کیے، اس دوران جماعت نے ہاؤس میں اکثریت بھی نہیں کھوئی۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا انحراف کرپٹ پریکٹس جیسا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طےکرنا مشکل ہے، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کو متاثر نہیں کرتا، کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ضمیر کے معاملات کے فیصلے کرنا مشکل، حقائق پر فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے، کیا آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ آئین کے آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف نہیں؟
شہزاد شوکت نے کہا کہ جی بالکل یہ فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ضمیر کا فیصلہ کون کرے گا؟ لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟ کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا بے ایمان ہیں،
اسکا فیصلہ کون کرے گا، ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں، ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنے والے،شہزاد شوکت نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہوگا، ایسے میں تعین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62/1 ایف پر جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، فیصلے میں وضاحت موجود ہےکہ نااہلی سے متعلق کون سی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اور کون سی نہیں، امریکی آئین میں انحراف سے متعلق کیا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے جواب دیا کہ وہاں اراکین ووٹنگ کے لیے آزاد ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ امریکا میں انحراف کی سزا نہیں جب کہ فیصلے میں تو امریکی سپریم کورٹ کے حوالے دیے گئے ہیں۔
شہزاد شوکت نے استدعا کی کہ ہماری گزارش ہےکہ فیصلے کو واپس لیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے، انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے جیسا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ صرف یہ نہیں کہتاکہ آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا، فیصلہ کہتا ہے کہ پارٹی کہے تو ووٹ لازمی کرنا ہے، پارٹی کے کہنے پر ووٹ نہ کرنے پر رکن کے خلاف کاروائی کا کہا گیا ہے، نظرثانی درخواست کب دائر ہوئی۔
شہزاد شوکت نے بتایا کہ 2022 میں نظرثانی درخواست دائر کی، چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری بھی جب صدر سپریم کورٹ بار بنے تو اپیل واپس نہیں لی، سپریم کورٹ بار کے دونوں گروپ نظرثانی درخواست پر قائم رہے، چلیں تسلی ہوئی کہ نظرثانی بار سیاست کی وجہ سے نہیں تھی۔ شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ نظرثانی خالصتاً آئینی مسئلہ ہی تھا۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ واقع کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھاکہ کسی بھی رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائےگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا استفسار کیا کہ نظرثانی کی مخالف کون کررہا ہے؟،علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا وکیل ہوں لیکن نوٹس تاحال موصول نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ویسے بتادیں آپ نظر ثانی کے حامی ہیں یا مخالف ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نظر ثانی کی مخالفت کروں گا، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ووٹ نہ گنا جانا آئین میں نہیں لکھا، اگر ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا تو مطلب ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا، انحراف کا اطلاق تب ہوگا جب ووٹ گنا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصلے میں جن ملکوں کے فیصلوں کا حوالہ ہے ان ممالک میں انحراف کی سزا کا بھی بتائیں، فریقین یہ بھی بتائیں کیا صدارتی ریفرنس اور 184/3 کی درخواستوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ ہے وہاں کی صورتحال بتائیں، نظر ثانی منظور ہونا یہ نہیں ہوتا کہ فیصلہ غلط ہے، وجوہات غلط ہوتی ہیں، نظرثانی کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے، آپ فیصلے کا نتیجہ نہیں صرف وجوہات دیکھ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت ملتوی کردیتے ہیں، جو وکلا رہ گئے ہیں، ان کے دلائل کل سنیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔