نیب قانون کاکاروباری شخصیات کیخلاف غلط استعمال کیاگیا: چیف جسٹس

Sep 01, 2023 | 11:35:AM

(امانت گشکوری)سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کیخلاف درخوست پر سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی گئی،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں درخواست گزارکی نیک نیتی پر سوال اٹھادیا، کہا ہے کہ سب سے بڑی خلاف ورزی ایک شخص کا اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑنا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب قانون کاکاروباری شخصیات کیخلاف غلط استعمال کیاگیا، ایک چٹھی پربھی نوٹس لے سکتے تھے،بنیادی حقوق کامعاملہ تھا اس لیے سن رہے ہیں۔

اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ایف بی آرکے بیرون ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابل قبول شواہد کے طور پر نہیں پیش کیے جا سکتے۔

نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ کا حصہ ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم نے نیب ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی، آپ نے کل کہا تھا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سےحاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں ہیں۔

 
نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے نیب ترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرا دی ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آرکے بیرون ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابل قبول شواہد کے طور پر نہیں پیش کیے جا سکتے، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟


وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا آئین میں صرف ملزم کے حقوق اور فیئر ٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتیں، ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں چاہے اپنے ملک کی کیوں نہ ہوں، سوئس عدالتوں نے آصف زرداری کیخلاف اپنے ملک کے شواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سےختم ہوئے تھے عدم شواہد پر نہیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی کوئی نہیں جانتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کل کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے، ان میں سے بھی کئی مقدمات اوپر جا کر آپس میں طے ہو جاتے ہیں، ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں جو تشویش کی بات ہے، قتل کے مقدمات میں 30 سے 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، متاثرین کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب پر دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب پر دلائل دیتے ہوئے کہا بیرون ممالک سے باہمی قانونی تعاون کے ذریعے شواہد لیے جاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا بیرون ممالک سے حاصل کردہ شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے بیرون ملک سے شواہد لیے جاتے ہیں اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پاکستان کےقانون میں بیرون ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مئی2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پرمبنی فہرست ہے، بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے، ہمارے پاس جمعہ کی وجہ سے آج ساڑھے 12 بجے تک کا وقت ہے۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو ساڑھے 12 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی جبکہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو کچھ وقت لیں گے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا پیر تک وقت نہیں،تحریری طورپرمعروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا حال ہی میں سندھ سے نیب مقدمے میں ملزم پلی بارگین پر آمادہ ہوا، نیب نے ملزم کے آمادہ ہونے پرپلی بارگین کی رقم بڑھا دی جوکہ مضحکہ خیز عمل ہے،  قانون کی کون سی شق ہے جوکہتی ہے کہ انصاف کے ترازو میں توازن برقرار ہونا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کرمنل لاء توکہتا ہے کہ ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کسی کے بنیادی حقوق متاثرہوں گے تو وہ عدالت آئے گا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب مقدمات میں پبلک آفس ہولڈرزکے احتساب کے عمل میں رکاوٹ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کرمنل جسٹس سسٹم کو شفاف ہونا چاہیے، درخواست گزارکا کیس یہ ہے نیب ترامیم سے ملزمان کو تحفظ دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ نیب ترامیم سے جو کیس ختم ہو گا وہ کسی دوسرے فورم پر چلا جائے گا جبکہ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا نیب قانون کے علاوہ کسی قانون میں پلی بارگین کی شق موجود نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا ایک منٹ کیلئے مان لیتے ہیں کہ ارکان پارلمینٹ نے خود کو فائدہ پہنچانے کیلئے ترامیم کیں، کیا ہم نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیں؟ اگرہم کالعدم قراربھی دیں توکس قانون کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیں؟ 

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آرٹیکل9 کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، ان ترامیم سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے۔

نیب ترامیم،کس کس نے فائدہ اٹھایا؟رپورٹ جمع

نیب ترامیم سے رواں سال فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیل سپریم کورٹ میں جمع ،نیب رپورٹ کے مطابق رواں سال30 اگست تک 12 ریفرنس نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے،ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری، شاہد خاقان عباسی شامل ہیں،خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا، خواجہ انور مجید کے نیب مقدمات منتقل ہوئے،جعلی اکائونٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکل گیا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ آصف زرداری کیخلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا،اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کیخلاف نیب کیس بھی احتساب عدالت سے واپس ہوگیا،رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے، نیب ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کر دیے گئے۔

مزیدخبریں