بلوچستان میں26 اگست کی رات اُس وقت موت کا رقص ابلیس شروع ہوا جب دہشتگردوں نے پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں، شاہراہوں اور فوج کی پوزیشنوں پر 44 مربوط حملے کرکے 73 انسانوں سے زندگی چھین لی ،حکام نے بتایا،پیر کی شام حملوں کے بعد دہشتگردوں کے ساتھ جھڑپوں میں 14 فوجیوں سمیت38 شہری شہید، 21 دہشتگرد مارے گئے،سب سے مہلک حملہ بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی راڑا شام شاہراہ پر ہوا جہاں شرپسندوں نے 35 بسوں اور ٹرکوں کو نذر آتش کرنے کے دوران 23 پنجابی مسافروں کو بسوں سے گھسیٹ کر شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد اہل خانہ کے سامنے قتل کر دیا ۔ دہشتگردوں نے صوبائی دارالحکومت کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والے ریلوے پل دھماکوں سے اڑانے کے علاوہ پڑوسی ملک ایران کے ساتھ منسلک ریلوے لنک کو بھی نشانہ بنایا۔ لاریب، رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے مگر سب سے کم آبادی والے صوبہ میں سرکاری املاک کے علاوہ مسافر گاڑیوں پہ دہشتگردوں کے اس قدر مربوط حملے کسی بڑے ملک کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے ۔
بادالنظری میں بلوچستان کی وسعتیں چین و امریکہ کے مابین جاری کشمکش کا میدان کار زار بنتی دیکھائی دیتی ہیں ۔ حیرت انگیز طور پہ بی ایل اے نے پہلی بار منظم فورس کی مانند تازہ آپریشن کو” تاریک آندھی “کا نام دیکر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایسے مزید حملوں کا عندیہ دیا ۔ بی ایل اے مرکزی حکومت کے خلاف برسرپیکار نسلی باغی گروہوں میں سب سے بڑا گروپ ہے، جو صوبہ میں چین کی سی پیک سے بیدخلی اور معدنی وسائل پہ تصرف پانے کو جواز بنا کر بیرونی ترغیب پہ بلوچستان کی آزادی چاہتا ہے ۔ اِسی لئے گروپ نے مربوط حملوں کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے کمانڈر جنرل لی کیاومنگ اور آرمی چیف عاصم منیر کے مابین ملاقات ہونا تھی، دونوں ممالک کے فوجی سربراہوں کی پیر کو ہونے والی ملاقات کے بعد فوج کی طرف سے جاری کردہ بیان میں حملوں کا ذکر تو نہیں ملتا تاہم بلوچستان میں سلسلہ وار حملوں کے بعد پیر کو چین نے اُن بلوچ باغیوں کے خلاف پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہمات کے لئے حمایت کا وعدہ کیا ، جو بوجوہ خطہ میں چینی سرمایہ کاری کی مخالفت کرتے ہیں ، یہ صوبہ بحیرہ عرب پر گوادر کی اسٹریٹجک گہرے پانی کی بندرگاہ سمیت چین کی مالی اعانت سے چلنے والے میگا پروجیکٹس کا مرکز ہے، چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے تازہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے نے ماضی میں بھی ، بلوچستان جہاں چین گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ چلاتا ہے، چینی شہریوں اور بیجنگ کے مفادات پہ حملے کئے ۔
بلوچستان میں برسوں سے جاری بغاوت کی لہروں میں سرگرم مسلح گروپوں کے علاوہ حقوق کی خاطر سیاسی جدوجہد کرنے والی، بلوچ یکجہتی کونسل، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کی دیگر اقسام کو عوامی بیانیہ کا جُز بنا کر بی ایل اے کی باغیانہ سرگرمیوں کو نقاب ابہام فراہم کرتی ہے ۔ پہلے بھی بلوچستان میں ایسے کئی حملے ہوئے، جن میں عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے علاوہ ریاستی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا لیکن تازہ ترین حملے اپنی شدت،وسعت اور فطرت میں عالمی قوتوں کے مابین پیکار کا مظہر دیکھائی دیتے ہیں ۔ فروری 2013 میں، پاکستان نے معاشی متبادل تلاش کرنے کی خاطر امریکی دباؤ کے باوجود چین کو گوادر بندرگاہ کا آپریشنل ٹھیکہ دیکر واشنگٹن کو ناراض کیا تھا ۔ چین اور بھارت تیل استعمال کرنے والی سب سے بڑی منڈیاں ہونے کے ناتے مشرق وسطی کے تیل اور تجارت سے استفادہ کی متمنی ہیں، اِس وقت مشرق وسطیٰ کی 70 فیصد سے زیادہ تجارت پر امریکہ و یوروپ کا قبضہ ہے لیکن خلیج فارس کے دہانے پر واقع گوادر کی بندرگاہ چین کو تیل سے مالا مال مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور مشرقی یوروپ کے بیشتر حصوں کے لیے مختصر ترین راستہ فراہم کرکے تیل کے حصول کے علاوہ مڈل ایسٹ کی 80 فیصد تجارت کو اپنی جانب کھینچنے کا موقعہ دے سکتی ہے ۔ گوادر میں سالانہ 19 ملین ٹن خام تیل سنبھالنے کی استعداد پائی جاتی ہے، جسے سعودی عرب کی مجوزہ ریفائنری سے بندرگاہ پر ریفائن کرکے چین اور بھارت بھیجا جائے گا ۔گوادر بندرگاہ کی کشش چین کی طرف سے پاکستان میں 10.63 بلین ڈالر مالیت کی 2000 کلومیٹر طویل سڑک اور ریل انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کاسب سے بڑا محرک بنی ۔ چین،بھارت اور پاکستان کو ایران سے ملانے والی گیس پائپ لائنوں کا نیٹ ورک بچھانے کی کوشش میں بھی سرگرداں ہے، تہران 2013 کے معاہدے کے مطابق اپنا حصہ پہلے ہی مکمل کرکے پاکستان کی طرف سے اپنا حصہ تعمیرکرنے کا منتظر بیٹھا ہے۔
ضرورپڑھیں:عمران خان کے بیانات میں چھپے الفاظ "ڈی کوڈ" ہوگئے
یہ منصوبہ فی الحقیقت ایران، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن پائپ لائن کے طور پر تصور کیا گیا تھا لیکن افغانستان میں نیٹو فورسیسز کی موجودگی اور ایران پہ امریکیوں پابندیوں کے باعث تاخیر کا شکار رہا ۔علی ہذالقیاس، اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو سی پیک جنوبی ایشیا کے پورے خطہ میں اقتصادی ترقی کا محرک بن سکتا ہے، جس کے خاص طور پر پاکستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے لیکن عالمی قوتوں کے مابین کشمکش کی وجہ سے اُن سنہرے مواقع کے ساتھ سنگین خطرات بھی وابستہ ہیں، ہمارے فیصلہ سازوں نے اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان بارے اپنی روایتی پالیسی پہ نظر ثانی نہ کی تو سی پیک جیسا عظیم منصوبہ مرکز اور وفاقی اکائیوںکے مابین لاینحل تنازعات کو جنم دے گا چنانچہ اس حساس معاملہ کو مضمرات سے بچانے کی خاطر وفاقی اتھارٹی کو سی پیک منصوبوں کو مستعدی، منصوبہ بندی اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھانا ہو گا ۔ادھر بھارت کو یہ خدشہ ہے سی پیک کی وساطت سے چین کی گوادر بندرگاہ تک رسائی چینی بحریہ کی استعداد کو دوگنا کر دے گی تاہم چین اور پاکستان کی طرف سے اس بات کی وضاحت کے باوجود کہ بندرگاہ کو صرف اقتصادی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، بھارت اب بھی گوادر میں ہونے والی پیش رفت بارے محتاط ہے ۔ چنانچہ بلوچستان میں اچانک بھڑک اٹھنے والی شورش کا اِن عظیم جغرافیائی منصوبوں اور سیاسی و اقتصادی پیش رفت سے گہرا تعلق ہے، اس کا مطلب ہے کہ دشمن ایجنسیاں تشدد میں اضافہ کو بیجنگ کو گیم چینجر منصوبوں سے پیچھے ہٹنے کے لئے ڈرانے کا مو¿ثر ہتھیار بنانا چاہتی ہیں ، اسی لئے چینیوں کی سب سے بڑی تشویش خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہے، خاص طور پر اس کے قریب ترین اور قابل اعتماد اتحادی، پاکستان میں ، جہاں بیجنگ نے سی پیک منصوبہ میں 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسی تناظر میں چین کی اقتصادی پیش قدمی روکنے کی خاطر امریکہ کی کانگریس نے پچھلے چند سالوں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا واویلا کرتے ہوئے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تک سے گریز نہ کیا ۔ جیو پولیٹیکل اسٹیج پر، امریکہ چین کی OBOR کے مقابلے میں ہندوستان کی ”لک ایسٹ “ پالیسی کی حمایت کرتا ہے، ماضی میں، واشنگٹن نے جنوبی اور وسطی ایشیا کو جوڑنے والی اپنی ”نیو سلک روڈ “ تجویز کی تھی، امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور نے 8 فروری 2012 کو بلوچستان پر کانگریس کی طلب کردہ سماعت میں پاکستان کی وفاقی حکومت پر بلوچوں کے حقوق محدود کرنے کے علاوہ پاک فوج پر بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف ”امریکی ہتھیار“ استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا، واضح رہے کہ یہ وہی وقت تھا جب امریکیوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کی امارت اسلامی کا دفتر کھول کے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی بساط لپٹنے کا ارادہ کر لیا تھا،اکتوبر 2001 میں بھی جنوبی ایشیائی ممالک کو معلوم تھا کہ افغانستان پر جارحیت کا اصل ہدف بلوچستان کی علیحدگی اورگوادر کی بندر گاہ پہ تصرف پانا تھا لیکن بیس سالوں پہ محیط افغان جنگ کے دلدل سے نکلنے کی خاطر واشنگٹن کا پاکستان کے تعاون پہ انحصار ان کے ناپاک عزائم کی راہ میں حائل رہا ۔
چنانچہ اسی نفسیاتی پس منظر میں کانگریس کی سماعت میں بلوچستان میں حق خود ارادیت کی وکالت کے ذریعے بلوچوں کو آزادی کی ترغیب دی گئی تاہم پاکستان نے کانگریس کی سماعت کو اس کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت قرار دیکر مسترد کر دیا تھا ۔انسانی حقوق کی آڑ میں بہت سے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے امریکی ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، اسلام آباد یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں امریکی ایجنڈا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کہیں زیادہ ایشیا میں طاقت کے توازن کو مستحکم کرنے والے کے طور پر، چین کے ساتھ ایک ممکنہ حریف کے طور پر پیکار کا شاخسانہ ہے ۔ دہائیوں پہلے، بحر ہند کے گرم پانیوں میں سوویت یونین کی توسیع کے خطرے نے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو صدر رچرڈ نکسن کو گوادر میں امریکی بحری اڈہ قائم کرنے کی پیشکش کی تھی تب اس خیال کو چین نے بھی سپورٹ کیا تھا لیکن جب تک چین نے گوادر کی بندر گاہ تک رسائی حاصل کر نہیں لی، واشنگٹن بظاہر بندرگاہ کی اہمیت کو نہ سمجھ سکا ۔ یہ بندرگاہ چین کے لیے وسطی ایشیا اور خلیجی ریاستیں سمیت اُن منزلوں کے دروازے کھول دے گی جہاں امریکہ پہلے سے موجود ہے یا اپنی بالادستی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ چنانچہ اس عہد میں ایک کامیاب سی پیک اور پُرامن جنوبی ایشیائی خطے کے قیام کی خاطر بلوچستان کی اہمیت تمام زاویوں سے بڑھ گئی ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر