جب سے اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ کارروائیاں شروع کی ہیں ہم پڑھ رہے ہیں کہ نیتن یاہو کی پالیسیز کے باعث اسرائیل میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کرچکے ہیں اسرائیل عالمی برادری میں حمایت کھورہا ہے یہاں تک کہ اب تو جرمنی ، فرانس ، اٹلی، برطانیہ اور اسپین نے بھی اپنے رویے میں غیر معمولی سختی پیدا کرلی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔
غزہ پر سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں اب تک 14 ہزار بچوں 10 ہزار سے زائد خواتین سمیت 23 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 74 ہزار سے زائد زخمی ہیں ، غزہ کی 90 فیصد عمارات تباہ ہوچکی ہیں جس کے باعث 20 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہیں ۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کےمطابق غزہ میں بھوک اور قحط خوفناک ہوچکا ہے اب تک 40 سے زائد بچوں سمیت 68 افراد بھوک سے شہید ہوچکے ہیں ، انفیکشن سے 90 ہزار سے زائد فلسطینی متاثر ہیں جبکہ صیہونی فوج نے غزہ کے 100 سے زائد اسپتالوں کو بمباری سے تباہ کردیا ہے غزہ شہر میں صرف 2 اسپتال جزوی طورپر کام کررہے ہیں جہاں ادویات نا ہونے کے برابرہیں ۔
یہ مختصر سا احوال ہے غزہ پر صیہونی بربریت کا پانچ ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل غزہ پر ایسی وحشیانہ کارروائیاں کررہا ہے جس کی گزشتہ 100 سالوں میں مثال نہیں ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کے 58 ممالک سوائے مذمتی بیانات کے اسرائیل کی اجازت کے بغیر غزہ میں ایک بوند پانی پہنچانے کے قابل نہیں ہیں ۔
اس انسانی تباہی میں جہاں عالمی برادری برابرکی شریک ہیں وہیں سب سے بڑی ذمہ داری مسلم ممالک مصر، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، اردن اور ترکی پر عائد ہوتی ہے جن میں سے اکثریت کے صیہونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور سعودی عرب تعلقات کو قائم کرنے کیلئے کسی حد تک جانے کو تیار ہے، یہ ممالک مبینہ طور پر تیل کی فراہمی کے علاوہ اسرائیل کو اشیائے خورو نوش اور ہتھیار برآمد کر رہے ہیں۔
یہاں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خواہشمند ممالک کی پالیسیز کے حوالے سے چند تفصیلات پیش کررہا ہوں ۔
سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلئے بے چین ہے اور مصری صدر السیسی غزہ کے محاصرے میں اسرائیل کا سب سے بڑا شراکت دار ہے جس نے غزہ کی 12 کلومیٹر کی سرحد کو مکمل طورپر اسرائیل کے ساتھ مل کر بند کیا ہوا ہے جبکہ خلافت عثمانئے کے نعرے سے مسلمانوں کو احمق بنانے والے ترک صدر طیب اردوان اور ان کے صاحبزادے کے اسرائیل کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات قائم ہیں ، میرا یہ مؤقف میرے خیالات پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا اظہار خواد ترکیہ کی عوام اور سیاسی حلقے کررہے ہیں، ترکیہ کی "فیوچر" پارٹی کے سربراہ احمد داؤد اوغلو نے غزہ جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے پر طیب ایردوآن پر سخت تنقید کی ان پر امریکہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اردوان سیاسی "بے حیائی اور منافقت" کا مظاہرہ کررہے ہیں ایردوآن غزہ جنگ بندی کی لفظی باتیں کرتے ہیں دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات مزید مضبوط کررہے ہیں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات خاص طور پر جہازوں کے ایندھن کا تسلسل جو جنوری میں اپنے عروج پر پہنچ گیا جبکہ یہ سازوسامان غزہ کے نہتے فلسطینیوں کے قتل میں استعمال کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ "ترک صدر آج جو کچھ کر رہے ہیں وہ غزہ اور مظلوموں کے ساتھ ایک تاریخی غداری ہے‘‘ ‘۔
ضرورپڑھیں:اسرائیل کی تباہی میں 5 سال باقی
متحدہ عرب امارات کے ہدایہ کے بین الاقوامی اسٹیئرنگ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر علی راشد النعیمی نے صیہونی ریاست اور اس کے رہنے والوں کو اپنا قریبی ساتھی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ، "ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی اس بات کو تسلیم کرے اور قبول کرے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے ، یہودیوں، عیسائیوں کی جڑیں نیویارک یا پیرس میں نہیں بلکہ ہمارے خطے میں ہیں ہم صدیوں سے ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ "
اردن اور مصر نے اسرائیل کو عشروں پہلے بطور ریاست تسلیم کرلیا تھا اور ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ گہرے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں ۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ سعودی عرب ، بحرین ، مصر ، اردن ، متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب ممالک اسرائیل کو اس قدر اہم کیوں سمجھتے ہیں جبکہ خود اسرائیل اور امریکہ کے حکام اب اسرائیل کی تباہی کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں ۔
یہاں میں اسرائیلی کے اندرونی سیاسی اختلافات کے حوالے سے کچھ معلومات شیئر کررہا ہوں جس کے بعد قارئین کو صیہونی ریاست کی تباہ کن صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
صیہونی ریاست کی داخلی سیکورٹی سروس شاباک کے سابق سربراہ امی آیالون کے ایک حالیہ انٹر ویو نے اسرائیل میں ایک ہنگامہ مچایا ہوا ہے ۔ امی آیالون نے فرانسیسی اخبار "لے مونڈ” کو انٹرویو دیتے ہوئے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے خبردار کرتےہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے جو کچھ کررہے ہیں وہ انتہائی خوفناک ہے اسرائیل کے بدترین دن بہت قریب ہیں ۔
تین روز قبل اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک رکن ، سابق آرمی چیف اور اسرائیل میں سب سے مقبول سیاستدان بینی گینٹز نے الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کو فوج میں لازمی سروس سے استثناء دیئے جانے کے بل کے حوالے سے بنجمن نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر الٹر آرتھو ڈوکس یہودیوں کو فوج میں بھرتی سے استثنیٰ دیا گیا تو وہ حکومت سے مستعفی ہوجائیں گے ، اسرائیل نیشنل رائٹ” پارٹی کے سربراہ اورگیڈون ساعر نے اسرائیلی ہنگامی حکومت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ "میں اس حکومت میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے نیتن یاہو اپنی پالیسیز سب پر تھوپ رہے ہیں اسرائیل اپنی سلامتی کے خطرے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک سعودی تعلقات کے نئے دور کا آغاز
اسرائیلی عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی نیتن یاہو کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے بنجمن نیتن یاہو کے مقاصد کچھ اور ہیں وہ حماس کے ساتھ مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے رہے ہیں، اسرائیلی قیدی "ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی جان کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور وزیراعظم اپنا سیاسی مستقبل بچانے کیلئے ملکی سلامتی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔”
اسرائیل میں اس وقت سیاسی اختلافات ہی نہیں ہیں بلکہ اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت کےدرمیان بھی سنجیدہ کشیدگی پائی جارہی ہے ، اسرائیلی فوج کا الزام ہے کہ ہم غزہ میں حماس سے لڑ رہے ہیں جبکہ ہماری حکومت ہم سے لڑ رہی ہے ۔
اسرائیل کی فوجی قیادت نے رفح میں آپریشن کے حوالے سے عسکری قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر
دو الگ الگ وفود کو امریکہ بھیجنے پر تحفظات کا اظہار کیا ، سیاسی قیادت نے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور قومی سلامتی کونسل کے چیئرمین زاچی ہنیگبی کی زیر قیادت وفد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں فوج بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامنا کررہی ہے جبکہ سیاسی قیادت عسکری قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر جنگی اقدامات کررہی ہے۔ ایک طرف اسرائیلی وزیر اعظم اور کنیسٹ اراکین کے درمیان تناؤ اور دوسری طرف عسکری قیادت کے درمیان کشیدگی ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
تل ابیب کی ریچمین یونیورسٹی میں برائے انسداد دہشت گردی آئی سی ٹی کے سربراہ میجر جنرل ریٹائرڈ یتزاک باراک اسرائیلی فوج کے چیف جنرل ہرزی ہیلیوی کو فوج کا بدترین انسان قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فوج کا ہی نہیں بلکہ اسرائیل کی سیکیورٹی کی تاریخی ناکامی کا ذمہ دار ہے۔
اسرئیل میں غزہ جنگ سے پہلے عدالتوں کو حکومتوں کے ماتحت کرنے کے اقدامات کئے جارہے تھے جس کے خلاف لاکھوں صیہونی آبادکاروں نے ایک سال تک شدید احتجاج جاری رکھا ہوا تھا جو تاحال جاری ہے اس احتجاج میں جہاں ہر طبقے کے افراد شامل تھے وہیں اسرائیلی فوج کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں ۔
اسرائیلی بحریہ کے سربراہ وائس ایڈمرل ڈیوڈ سار سلامہ نے سینئر ریزروسٹ ریئر ایڈمرل اوفر ڈورون کوفوج سے معطل اور رئیر ایڈمرل (ریئر) ایال سیگیو کے خلاف کارروائی شروع کی ہے ۔ دونوں افسران نے نیتن یاہو کی جانب سے عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے حکومت کے متنازعہ منصوبوں کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کا اعلان کرتےہوئے حکومت کو آمریت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس حکومت کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں افسران اسرائیلی نیوی کے انتہائی سینئر افسر ہیں جن کے نیچے 5 ہزار سے زائد عملہ کام کرتا ہے۔
یہاں نے بہت اسرائیلی سیاسی صورتحال کی بہت مختصر صورتحال بیان کی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے لیکن اندرونی طورپر بھی ٹوٹ رہا ہے ۔
اسرائیل کی جیوش پیپلز پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور اسرائیلی براڈ کاسٹ کارپوریشن کے مبصر شموئل روزنر، نے نیتن یاہو پر تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو جو پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں وہ انتہائی تباہ کن اور ملکی سلامتی کیلئے انتہائی خطرناک ہے ۔
میری رائے ہے کہ نیتن یاہو ایک مشکل وقت سے گزررہے ہیں لیکن وہ ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ تاریخ میں دہشتگرد ملیشیا لیڈر زیف جبوتنسکی، صیہونی تنظیم کے بانی تھیوڈور ہرزل، اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریون،چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے ہیرون موشے دایان کی طرح ان کو یاد رکھا جائے ۔
نیتن یاہو جس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ سیاسی بغاوت اور ہٹ دھرمی ہے جس میں کوئی اخلاقی قدرنہیں ہے اور یہ صیہونی ریاست سے بھی غداری ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے اسرائیل سے اب تک 5 لاکھ کے قریب اسرائیلی پولینڈ ، امریکہ ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک میں نقل مکانی کرچکےہیں جبکہ لبنان کے ساتھ شمالی سرحد سے 2 لاکھ سے زائد اسرائیلی نقل مکانی کرکے اندرونی اسرائیل میں خیموں میں محصور ہیں ، صیہونی وزیراعظم اسرائیل کی آئندہ نسل کو ایک زبردستی کی جنگ لڑنے اور اپنی اور اپنے جنونی ٹولے کی انا کی تسکین کےلئے قربان کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل میں سیاستدانوں سمیت لاکھوں افراد نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
موجودہ صورتحال کو دیکھ کر باآسانی کہہ جاسکتا ہے کہ اگر نیتن یاہو نے اپنی ہٹ دھرمی قائم رکھی تو بہت جلد اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوں گا اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے عرب ممالک جلد اپنے منہ کی کھائیں گے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر