(ایم وقار) پنجابی لوک گیتوں کی کہکشاں،صدائے پنجاب اورعظیم گلوکارشوکت علی کواس دنیاسے گئے چاربرس بیت گئے،وہ2 اپریل 2021 کو راہی ملک عدم ہوگئے تھے۔
شوکت علی کا شمار ملک کے اُن مایہ ناز فنکاروں میں ہوتاتھا جنہوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی اور ملک کےلئے سرمایہ افتخار ثابت ہوئے۔ پنجابی لوک گیتوں کی خوشبو بکھیرنے والے اس عظیم فنکار کی سب سے بڑی خوبی اور خوب صورتی یہ تھی کہ ان کی آواز اور انداز میں پنجاب کا لوک ورثہ زندہ وتابندہ نظر آتا تھا،ان کے بغیر لوک گائیکی کی تاریخ مکمّل ہوتی ہے نہ ہی اس کاتذکرہ، ان کے گائے ہوئے گیتوں کے ذریعے پنجاب کی ثقافت مضبوط اور نئی نسل اپنے ماضی کے ساتھ وابستہ ہوئی۔
شوکت علی کی گلوکاری کی بدولت ”جگا“ اور” دلا بھٹّی“ جیسے لافانی لوک کردار ماضی کے دھندلکوں سے نکل کر سامعین کی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیئے۔
شوکت علی کا تعلّق موسیقی کے ایک معروف گھرانے سے تھا، تقسیم ہند سے قبل ان کے والد کی اندرون بھاٹی گیٹ میں ٹیلرنگ کی دکان تھی، پہلوانی بھی کرتے تھے چونکہ ان کا تعلّق موسیقار گھرانے سے تھااس لئے بہت سُریلے گلوکار بھی تھے۔ ننھیال سے ان کے بزرگ ملکوال سے تعلّق رکھتے تھے،شوکت علی کی پیدائش اندرون بھاٹی گیٹ ہوئی،شوکت علی چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ بڑے بھائی عاشق حسین ملنگ کے بعدعنایت علی اور تیسرے صادق علی میو ہسپتال میں ملازم تھے۔ان کے والد کاانتقال تقسیم سے قبل ہی ہو گیاتھاجس کی وجہ سے ان کی والدہ بچوں کو لے کر ملکوال چلی گئیں،اس وقت شوکت علی تیسری جماعت کے طالب علم تھے۔ شوکت علی نے ”صیدِہوس“ نام کے ایک ڈرامے سے بطور چائلڈ سٹار کیریئر کا آغاز کیا جو آغا حشر کاشمیری مرحوم کا ڈرامہ تھا ،اس میں انہوں نے شہزادہ قیصرکا کردارادا کیا تھا۔ آغا حشر کے دیگر ڈراموں کی طرح اس میں بھی گانے شامل تھے جو لوگوں کو بہت پسند آئے۔
ملکوال سے پھروہ اندرون بھاٹی گیٹ آگئے جہاں محرم الحرام کی مجالس پڑھنا شروع کردیں، شوکت علی نے موسیقی کی تربیت اپنے بڑے بھائی عنایت علی سے حاصل کی جو عنایت علی چھلے والے کے نام سے مشہور تھے۔
شوکت علی نے فوک اورصوفیانہ کلام کے ساتھ ساتھ 65ءکی پاک بھارت جنگ میں فوجی جوانوں کے لہوکوگرمانے کےلئے ترانے بھی گائے جن میں”ساتھیو مجاہدوجاگ اُٹھاہے ساراوطن“ اور”میں پترپاکستان دا“نمایاں ہیں،ان کی آواز میں میاں محمدبخش کاکلام سیف الملوک فلم”چن وریام“میں بھی شامل کیاگیاتھاجس کی موسیقی وجاہت عطرے کی تھی۔
مسعودراناکے ساتھ انہوں نے حمایت علی شاعرکاکلام”ساتھیو مجاہدوجاگ اُٹھاہے سارا وطن“ فلم ”مجاہد“ کے لئے گایاتھاجس کی موسیقی خلیل احمدکی تھی۔”میں پترپاکستان دا“انہوں نے عنایت حسین بھٹی اورناہیداخترکے ساتھ مل کر گایاتھا اوریہ فلم”اتھراپتر“میںشامل تھا۔ان کی آوازمیں ایک نعت ”نبی دے اسی غلام“ فلم”بہرام ڈاکو“میں شامل ہوئی تھی۔وہ صوفیانہ کلام، غزل اور پنجابی گیت گانے میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے،انہیں برصغیر میں فوک گائیکی کا رانجھا بھی کہاجاتاتھا،فوک گائیکی میں شوکت علی کااندازہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا،انہوں نے دو فلموں ”کفارہ“ اور”اکبرا“ میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے تھے،پنجابی میں ان کے دو شعری مجموعے بھی شائع ہوئے تھے۔
شوکت علی کوطویل کیریئر کے دوران بے شمار اعزازات سے نوازا گیاتھا۔ 1990ءمیں انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ملا، 1981ءمیں پہلا پی ٹی وی ایوارڈ ملا، اس کے علاوہ انٹرنیشنل پنجابی ایوارڈ وینکوور ‘ وائس آف پنجاب ایوارڈ کیلیفورنیا‘ کنگ آف پنجابی فوک لور ٹورنٹو‘ اوری اینٹل لینگویجز ایوارڈ موریشس‘پنجابی کلچرل فیسٹیول ایوارڈ موہالی ‘پروفیسر موہن سنگھ ایوارڈ کینیڈا‘نگار ایوارڈ‘گریجوایٹ ایوارڈ‘گیت سنگیت ایوارڈ کیلیفورنیا‘قلعہ رتن ایوارڈ شارجہ‘طفیل نیازی ایوارڈ‘پرویزمہدی ایوارڈ‘اوری اینٹل سٹار گولڈن ڈسک برمنگھم سمیت بے شمار ایوارڈ بھی انہیں مل چکے تھے۔
2017ءمیں ایک کینیڈین کمپنی نے ان کے بیٹے محسن شوکت علی کی مدد سے شوکت علی کی پاکستانی میوزک انڈسٹری کے لئے خدمات پر ایک گھنٹے کی ڈاکیومنٹری تیارکی تھی جس میں ان کے کیریئر میں پیش آنے والی مشکلات کابھی احاطہ کیاگیاتھا۔
یہ بھی پڑھیں:فواد خان کی9سال بعد بالی ووڈمیں انٹری، فلم کا ٹیزر شیئر کر دیا
شوکت علی نے کلاسیکی موسیقی کی تربیت بچپن میں ہی حاصل کی تھی اس لئے انہیں ہر راگ سے واقفیت تھی۔انہوں نے غالب‘ داغ اور مومن کا کلام بھی گایا لیکن میاں محمد بخش کا کلام ان کی خاص پہچان بنا۔ ”کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں‘ دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں“نے انہیں باقاعدہ لوک گلوکار کی شناخت دی ، سیف الملوک سے انہیں بلاشبہ بہت شہرت ملی،نظام دین نے ایک بار کہا تھا کہ سیف الملوک کو ”شوکت ملوک“ کہا کرو۔