(ویب ڈیسک) باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکے نے جہاں کئی گھرانوں کے چراغ گل کیے، وہیں ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے والے محنت کش بچے ابوذر کی سانسیں بھی چھین لیں جو 7 بہنوں کو اکلوتا اور اپنے باپ کا سہارا بنا ہوا تھا۔
ننھے ابوذر خان کو ایک ایسی موت ملی جس کا وہ ہرگز مستحق نہیں تھا۔ وہ اسکول سے چھٹیوں کے دوران چپس اور پاپڑ بیچ کر اپنے باپ کا سہارا بنا ہوا تھا۔ ابوذر نے اپنے آخری وقت میں بھی پاپڑ اور چپس بیچ کر گھر والوں کے گزر بسر کو ممکن بنانے میں مصروف تھا۔
جمعیت علمائے اسلام کے اس ورکرز کنونشن میں شرکا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور کئی اہم رہنما تقاریر کر چکے تھے اور کچھ رہنمائوں نے ابھی تقاریر کرنا تھیں کہ اس دوران اسٹیج کے قریب زوردار دھماکا ہوا جس سے ہر طرف افراتفری کے ساتھ ساتھ بھگڈر مچ گئی۔
ابوذر خان کے والد جاوید خا ن نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میرا بیٹا چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، اور ان دنوں اسکول کی چھٹیاں تھیں تو وہ علاقے میں چپس اور پاپڑ وغیرہ فروخت کرنے کے لیے جلسہ گاہ گیا تھا۔ ابوذر نے کل دوپہر اپنی بہن سے کہا کہ مجھے میرے کپڑے چاہیں۔ کپڑے بدلنے کے بعد دو بجے کے قریب وہ گھر سے باہر نکل گیا۔‘
یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم اور آرمی چیف کا دورہ پشاور، باجوڑ دھماکے سے متعلق بریفنگ
جاوید خان کے مطابق دھماکے کی اطلاع ملتے ہی میں بھاگا بھاگا اسپتال پہنچا اور زخمیوں میں اپنے بچے کو تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا۔‘
انہوں نے بتایا، ’میں نے اس کے بعد مردہ خانے کا رُخ کیا تو چار پانچ لاشیں پڑی ہوئی تھیں، اور وہاں میں نے اپنے بیٹے کو اس کے کپڑوں کے رنگ سے پہچان لیا۔
واضح رہے یہ دھماکا ضلع باجوڑ کے علاقے خار میں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ورکرز کنونشن میں ہوا تھا۔ اس کنونشن میں جے یو آئی کے مقامی عہدیدار تقریر کررہے تھے کہ اس دوران زوردار دھماکا ہوگیا اور ہرطرف بھگڈر مچ گئی۔
ڈی جی ہیلتھ خیبرپختونخوا کے مطابق دھماکے میں 54 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہیں۔ اس افسوسناک واقعے میں خار کے امیر مولانا ضیاء اللہ بھی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔