بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی خبریں ابھی صرف ذرائع اور افواہوں تک محدود ہیں لیکن ہم آپ کو اس خبر کی کنفرمیشن دے رہے ہیں اور اسی بلاگ کے ساتھ اُس بیرک کی تصویر بھی دکھائیں گے جو تیار کر لی گئی ہے۔ یہ بیرک کہاں واقع ہے اور اس کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور اس بیرک کا پھانسی گھاٹ کہ یہ ایک سنجیدہ کوشش ہے ،حکومتی حلقوں میں اس بات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ اگر عمران خان اڈیالہ میں رہے تو اُن کی جان کو بڑا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور یہ خطرہ کہیں اور سے نہیں خود اُن کی پارٹی کے اندر سے ہوگا ،اس خیال کے پیچھے وہی نظریات کارفرما ہیں جن کے مطابق عمران خان کی تحت نشینی کی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف جسے کچھ لوگ اب تحریک انتشار اور بانی کو بانی تحریک انتشار لکھتے اور پکارتے ہیں، میں تحت نشینی کی اس جنگ نے شدت اختیار کرلی ہے۔ تین سے چار گروپ بن چکے ہیں، ایک گروپ کی سربراہی بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کر رہی ہیں ، اس گروپ میں اسد قیصر ، بیرسٹر گوہر اور عاطف خان نمایاں ہیں، یہ گروپ بانی کی عدم موجودگی میں اُن کی بیوی کو مظلومیت کارڈ کے حوالے سے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔
سب سے مضبوط گروپ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کا گروپ ہے، اقتدار اسی گروپ کے پاس ہے، اس گروپ میں علی محمد خان اور مراد سعید ، شوکت یوسف زئی اور بیرسٹر سیف جیسے لوگ شامل ہیں، یہ گروپ بشریٰ بی بی کو کسی طور پارٹی سربراہی دینے کو تیار نہیں ہے اور مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے کہ بانی بشریٰ بی بی کو گھر واپس بھیجے یعنی انہیں سیاست میں فعال کر دار ادا کرنے سے منع کرے ،اسی گروپ نے درپردہ بشریٰ بی بی کے خلاف موروثیت کو لیکر مہم چلا رکھی ہے جو اب آہستہ آہستہ کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے ،اس گروپ نے علی محمد خان کی جو آڈیو لیک خود لیک کرائی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ " بشریٰ بی بی کے احتجاج میں شمولت کا بھی بانی کو علم نہیں تھا " کافی غور طلب جملہ ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے بالا بالا بی بی اپنا گروپ بنانا چاہتی ہیں، یاد کریں، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ تحریک انصاف پر ایک ہاتھ قبضہ کرنا چاہتا ہے لیکن آپ آڈیو لیک کو غور سے سنیں تو آپ کو اس جنگ کی سنگینی کا علم ہو علی محمد خواجہ کہتے ہیں ۔
ضرورپڑھیں:بشریٰ بی بی کو پشاور چھوڑنے کا حکم ، گل ودھ گئی اے مختیاریا
"بانی چیئرمین کے حکم پر سنگجانی کے بجائے ڈی چوک جانے پر پارلیمانی پارٹی میں رہنماوں کی کئی سوالات ہیں جن کا جواب چاہیے ، پی ٹی آئی سیاسی پارٹی ہے احتجاج کا اعلان علیمہ خان کے بجائے بیرسٹر گوہر کو دینا چاہئے تھا، بانی چیئرمین نے تو کہا تھا ہماری پارٹی میں مورثیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔علیمہ خان نے خود کیوں احتجاج کی کال دی؟ میں نے بانی چیئرمین سے بھی شکایت کی کہ اعلانات پارٹی کی طرف سے ہونی چاہئے خان صاحب نے بھی کہا کہ آئندہ کال پارٹی لیڈرشپ دے گی،بانی چیئرمین نے ڈی چوک آنے کا کہا ہی نہیں تھا، بانی چیئرمین نے صرف اسلام آباد آنے کا کہا تھا،خان صاحب نے کہا اسلام آباد میں کارکنان کی آمد کے بعد جگہ بتائی جائے گی،جب بانی چیئرمین نے سنگجانی کا کہا تھا تو پھر کس کے کہنے پر ڈی چوک گئے؟بانی چیئرمین نے بیرسٹر گوہر، فیصل چوہدری اور دیگر کے سامنے کہا تھا ہمارا مقصد احتجاج کے ذریعے مذاکرات کرنا تھا،سندھ اور پنجاب میں الگ الگ احتجاج کرنے کی بھی بانی چیئرمین نے مخالفت کی تھی،بانی چیئرمین نے سنگجانی میں بیٹھنے کا کہا تھا،بانی چیئرمین نے مذاکرات کرنے بھی حکم دیا تھا، بشری بی بی کی احتجاج میں شمولیت کا بھی بانی چیئرمین کو نہیں پتہ تھا،بیرسٹر گوہر نے بانی چیئرمین کو بتایا کہ بشری بی بی احتجاج میں آئی ہے،چیئرمین پی ٹی آئی اور سیکرٹری جنرل کو سنگجانی بیٹھنے کا اعلان کرنا چاہئے تھا،وزیراعلی علی امین گنڈا پور بھی سنگجانی پر متفق ہوگئی تھے،جب بانی چیئرمین نے سنگجانی بیٹھنے کا کہا تو پھر آگے سب کیوں گئے؟ ہمیں اپنے لیڈر کے حکم پر عمل کرنا چاہئے تھا،ہمیں سنگجانی میں رکنا چاہئے تھا، بشری بی بی سمیت کسی کے پاس حق نہیں ہے کہ بانی چیئرمین کے فیصلے کے اوپر فیصلہ دے،بیرسٹر سیف نے جب بانی چیئرمین کا پیغام پہنچایا تو اس پر عمل کرنا چاہیے تھا"
ایک ایک لفظ غور سے پڑھیں کہ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ گروپ کس تیزی اور طاقت سے بشریٰ بی بی کے جنات و عملیات کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترا ہے ۔
اس کے بعد ایک چھوٹا سا گروپ ہے جسے "نند گروپ " کہا جائے تو غلط نا ہوگا یہ گروپ بشریٰ بی بی کی جانب سے زمان پارک والا گھر اپنے نام کرانے کے بعد معرض وجود میں آیا تھا، اس گروپ کو علیمہ خان لیڈ کر رہی ہیں، یہ ایک خاندانی گروپ ہے جس کا کچھ زیادہ اثر نہیں، اس گروپ کا واحد مقصد مقبولیت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہے۔
آخر میں وہ گروپ جو پی ٹی آئی کا حقیقی گروپ ہے یعنی وہ لوگ جو بانی پی ٹی آئی کے ساتھ وفاداری میں جیلوں میں بند ہیں اس گروپ میں شاہ محمود قریشی ٫ عمر سرفراز چیمہ ٫ اعجاز چوہدری ٫ میاں محمود الرشید، یاسمین راشد اور مفرور میاں اسلم اقبال کے ساتھ ساتھ باہر بیٹھے وہ ان گائیدڈ مزائل ، شہباز گل اینڈ کمپنی ہیں جو اپنی موجودگی کا احساس صرف عمران خان کے وجود میں ہی تلاش کرتے ہیں، یہ گروپ اس وقت قید و بند کی صوبتیں برداشت کر رہا ہے اور ان آخر میں اُس بیرک کا احوال جس میں عمران خان کو رکھا جائے گا تو اس بیرک میں اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو ، آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف بھی قیام کر چکے ہیں یہ بیرک تمام سہولیات سے مزین ہے۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر