(24نیوز)کینیڈا کی پارلیمنٹ نے بدھ کے روز متفقہ طور پر 10,000 اویغور پناہ گزینوں کو واپس لینے کی تحریک منظور کی جو چین سے فرار ہو گئے تھے لیکن اب انہیں واپسی کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔
اس میں 2024 سے شروع ہونے والے دو سالوں کے دوران 10,000 اویغوروں کو کینیڈا میں دوبارہ آباد کرنے کی تجویز ہے۔یہ اقدام فروری 2021 میں کینیڈا کے قانون سازوں کی جانب سے چین کی طرف سے اپنے شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے میں ایغوروں اور دیگر ترک مسلمانوں کے ساتھ سلوک کونسل کشی قرار دینے کے اقدام پر استوار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کم از کم دس لاکھ اویغور اور دیگر زیادہ تر مسلم اقلیتوں کو اس خطے کے حراستی کیمپوں میں قید کیا گیا، جہاں چین پر خواتین کی جبری نس بندی اور جبری مشقت مسلط کرنے کا بھی الزام ہے۔
ضرور پڑھیں :امریکہ کی افغان طالبان،اہلِ خانہ پر پابندیاں عائد
بیک بینچ ایم پی سمیر زبیری نے کہا ہے کہ’ جنہوں نے اس تحریک کو سپانسر کیا، کم از کم 1,600 کو چین کے کہنے پر دوسرے ممالک میں حراست میں لیا یا زبردستی واپس بھیج دیا گیا۔ ایک نیوز کانفرنس میں زبیری نے بتایا کہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کی کابینہ کا اس تحریک کی حمایت میں ووٹ دینا حکومت کے "ایسا کرنے کے ارادے" کا اشارہ دیتا ہے حالانکہ یہ غیر پابند ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ "یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ ہم ایغور لوگوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قبول نہیں کرتے، اور جو کچھ ایغوروں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ایغور رائٹس ایڈووکیسی پروجیکٹ کے ایگز یکٹو ڈائریکٹر مہمت توہتی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ایک مضبوط پیغام ہےجو کہ "نہ صرف چین اور کینیڈا میں بلکہ پوری دنیا میں گونجے گا۔
اس تحریک میں انہوں نے کہا کہ "تیسرے ممالک میں فرار ہونے والے اویغوروں کو چین واپس جانے کے لیے چینی ریاست کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے" اور بیجنگ پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ان ممالک پر ایغور مسلمانوں کو حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کے لیے سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈال رہا ہے۔
چین نے سنکیانگ میں اپنے اویغور کیمپوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی سے لڑنے اور اقلیتوں کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کے لیے اہم ہیں۔ لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ چین کا ایغوروں پر جبر "نسل کشی" کے مترادف ہے اور اقوام متحدہ نے چین کی طرف سے ایغوروں اور دیگر ترک مسلمانوں پر ظلم و ستم کی مذمت کی ہے۔ورلڈ ایغور کانگریس کے صدر ڈولکن عیسیٰ نے کہا کہ "اویغور لوگ حملے کی زد میں ہیں، ہماری زبان، ثقافت، مذہب، تاریخ اور نسلی شناخت کو خطرہ ہے۔