بوائز وِل بی بوائز: سی ایس ایس 2023ء کے امتحانی پرچے نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) تین گھنٹوں میں ’بوائز وِل بی بوائز‘ کے عنوان پر کیا مضمون لکھا جاسکتا ہے جس پر پاکستان میں بحث جاری ہے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سال 2023ء کا سی ایس ایس کا امتحان منعقد کروایا جس میں معمول کے مطابق انگریزی مضمون کے امتحان میں ہزاروں امیدواروں کو 100 نمبروں کا ایک پرچہ تھمایا گیا مگر اس بار مضمون کے عنوانات میں دیے گئے دس آپشنز میں سے آخری چوائس سوشل میڈیا صارفین کو سب سے الگ لگی جس میں امیدواروں کو تین گھنٹوں میں ’بوائز وِل بی بوائز‘ کے عنوان پر تفصیلی مضمون لکھنے کی آپشن دی گئی تھی۔
بعض لوگوں نے جہاں اس پرچے میں چھپے ’صنفی امتیاز‘ کی بات کی ہے وہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے کسی سوال کو خواتین اور مردوں سے جڑے تعصب توڑنے کیلئے بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
ہر سال گریڈ 17 کی سرکاری نوکری کے خواہشمند ہزاروں پاکستان شہری سی ایس ایس کے امتحانات دیتے ہیں جن میں سے صرف دو فیصد کے قریب ہی تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔
امیدوار ویسے تو ایک وسیع فہرست میں سے اپنی مرضی کے مضمون رکھ سکتے ہیں مگر کچھ مضمون لازمی ہوتے ہیں، جن میں انگریزی کے دو سبجیکٹس میں سے ایک انگریزی مضمون نویسی ہے۔
سی ایس ایس کے اس پرچے نے سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کی ہے جہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیوروکریسی اور انتظامیہ میں صنفی تعصب کو نمایاں کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بحث کیلئے یہ ایک اچھا موضوع ہے جس پر صنفی برابری کے حق میں دلائل دیے جاسکتے ہیں۔
Among the most important topics to discuss, this is how the CSS examinar makes sure the most important topic of the existence of males to the feminists
— Syeda Irum Zahra (@SayedaIrum) February 1, 2023
"Boys will be boys," ????#CSSEssay2023 #CSS2023 pic.twitter.com/Bm9zBxDaZL
اس حوالے سے سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں سیدہ ارم کا کہنا ہے کہ سب سے اہم عنوانات چھوڑ کر سی ایس ایس امتحان بنانے والوں نے پوچھا کہ فیمنسٹس مردوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔‘
حذیفہ کا خیال ہے کہ ’یہ سب سے دلچسپ اور چیلنجنگ امتحانات میں سے ایک ہے۔ آپ سب اس پر پاگل ہورہے ہیں کیونکہ انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی، کووڈ 19 یا امریکی اجارہ داری کا نہیں پوچھا۔‘
i genuinely believe this is one of the most interesting & challenging exams ever. but yall going crazy because they didnt ask abt climate change, covid-19, US hegemony etc. sara mulk literally 4-5 essays ka ratta lga kr CSS denay jata hy. i loveee this exam fr BOYS WILL BE BOYS pic.twitter.com/K42pI6RQqZ
— Huzaifa (@notrlly_huzaifa) February 1, 2023
ان کی رائے میں ’سارا ملک چار سے پانچ مضمون رٹ کر سی ایس ایس دینے جاتا ہے۔‘
اسی طرح بی بی زرجان کہتی ہیں کہ ’میں سی ایس ایس کی فین نہیں لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ اتنا کوئی بُرا عنوان ہے۔ اس میں صنفی امتیاز، مردانہ استحاق اور زبان و بیان کے مختلف عوامل پر بات ہوسکتی ہے۔‘
“Boys will be boys” appeared as an essay topic for CSS 2023 and Pakistan seems to be in fits of laughter however…
— Bibi Zarjan Gul (@zarjan_5) February 1, 2023
اہم کچھ صارفین نے اس پرچے کو صرف طنز و مزاح میں اڑانے کے لائق سمجھا ہے۔ کوئی یہ پوچھتا نظر آیا کہ اس عنوان میں کیا ’بوائز‘ سے مراد ’پنڈی بوائز‘ ہے۔ تو کسی نے تبصرہ کیا کہ لگتا ہے کہ پرچہ بنانے والا شخص انسٹاگرام کے ٹرینڈز سے کافی واقف ہے۔
جیسے ایک صارف نے مصنوعی ذہانت کے سرچ انجن چیٹ جی پی ٹی سے پوچھ لیا کہ اس کے مطابق بوائز ول بی بوائز بہترین مضمون کیسے لکھا جاسکتا ہے۔
اس پر چیٹ جی پی ٹی نے بتایا کہ اس محاورے کو چیلنج کرنا اسلئے ضروری ہے تاکہ صنفی برابری کو فروغ دیا جاسکے۔ یوں اس نے ایسا مضمون لکھ چھوڑا جس پر سی ایس ایس امتحان کا چیکر بھی سوچ میں پڑ جائے۔
Is the "Boys will be boys" an indirect way of getting everyone to write an essay on how our army will never change no matter what the cost? pic.twitter.com/8ejgxx82Ap
— Zainab (@Syyeda14) February 1, 2023
دوسری طرف کچھ صارفین اسے نسبتاً سنجیدہ بحث کی طرف لے گئے۔
Why does the FPSC assess candidates on essays written on topics suitable for 5th grade students?!?
— Salahuddin Ahmed (@SalAhmedPK) February 1, 2023
“A friend walks in when everyone else walks out”
“Boys will be boys”
???? No wonder standards in our bureaucracy are plummeting. https://t.co/KtoWGjakZb
صلاح الدین پوچھتے ہیں کہ ’ایف پی ایس سی امیدواروں کا جائزہ لینے کیلئے ان سے پانچویں کلاس کے طلبہ سے کیے جانے والے سوال کیوں پوچھتا ہے؟ ۔۔۔ اس لیے کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہماری بیوروکریسی کا معیار گِر رہا ہے۔‘