اقلیتی برادری کا انتخابات میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ

رپورٹ :علیشبہ آصف

Feb 02, 2024 | 14:47:PM

ملک بھر میں اگر ایک طرف انتخابات کی گہما گہمی عروج پہ ہے تو دوسری جانب ملتان شہر میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں رہائش پذیر اقلیتی برادری کے سینکڑوں ووٹر کو انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حلقے این اے 150 کے اس علاقے، ڈبل پھاٹک میں ہندو اور مسیحی برادری کی کل آبادی 2 ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہیں جبکہ رجسٹرڈ ووٹ کی تعداد 1155 ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبلی کی 12 نشستوں کی ووٹرز لسٹوں کے مطابق ڈسڑکٹ ملتان میں ووٹرز کی کُل تعداد 30 لاکھ 41 ہزار 7 سو 29 ہے جس میں اقلیتی برادری کے ووٹرز کی تعداد 10 ہزار 8 سو 40 ہے۔

آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں دس اور آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی 4، پنجاب اسمبلی کی 8 ، سندھ اسمبلی کی 9 اور بلوچستان اسمبلی کی 3 نشستیں شامل ہیں۔

ڈبل پھاٹک سے بڑے بڑے نام انتخابات میں اپنی قسمت آزمائیں گے؛ مسلم لیگ ن کے جاوید اختر انصاری، پاکستان پیپلز پارٹی سے رانا محمودالحسن اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے سابق وزیر خارجہ کے بیٹے ذین قریشی میدان میں اتریں گے۔

ضرور پڑھیں:خواتین کو آج بھی سیاست میں مخالف رویوں کا سامنا
ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی ڈبل پھاٹک کی رہائشی خاتون، 55 سالہ پائیل، کے مطابق وہ مایوس ہیں کیونکہ ہر بار انتخابات کے دوران سیاست دانوں کی جانب سے ان کے ساتھ کے گئے بڑے بڑے وعدوں میں سے آج تک کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا: "ملتان میں موجود پرانے مندر کے مسائل آج بھی حل نہ ہو سکے۔"
ڈبل پھاٹک ہی کی ایک اور ہندو رہائشی، اور سماجی کارکن، شنکتلا دیوی کے مطابق علاقہ مکینوں کا ووٹ نہ دینے کا فیصلہ اُن کی افسردگی کا عکاس ہے؛ ملتان شہر میں واقع 110 سے زائد چھوٹے بڑے مندروں میں سے صرف دو اپنی اصل حالت میں موجود ہیں باقی یا تو خاستہ حال ہیں یا پھر ادھر جانے کی اجازت نہیں: "یہ ہم سب کا ملک ہے ناں؟ ہمیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت ہمارے ملک کا قانون بھی دیتا ہے نہ کہ ڈر کر اآواز تک بلند نہ کر سکیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست1947 کو قانون ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اقلیتوں کے بارے میں تاریخ ساز الفاظ ادا کرتے ہوئے مملکت پاکستان کی پالیسی واضح کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: "پاکستان میں آپ آزاد ہیں؛ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی بھی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔"

ضرور پڑھیں:خواتین کو آج بھی سیاست میں مخالف رویوں کا سامنا
ڈبل پھاٹک کے رہائشی 45 سالہ جان مسیح نے بتایا: "ناراضگی انتخابات نہیں بلکہ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاست دانوں سے ہے جو ہمیں بعد میں بھول جاتے ہیں۔ آج بھی ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ملتان میں صرف 2 قبرستان مسیحی برادری کے لیے مختص ہیں جہاں اب تدفین کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہماری مشکلات بڑھ گئی ہیں؛ ہم اپنی مذہبی رسومات کھل کر ادا نہیں کر پاتے کیونکہ ہمیں ڈر لگتا ہے۔ ہم کیوں ڈر رہے ہیں؟ کیا کسی سیاست دان نے کبھی مذہبی ہم آہنگی کو پھیلانے کی کوشش کی ہے؟ اگر لوگوں کو آگاہی نہیں دیں گے تو ہمیں ان سے ڈرنا ہی پڑے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ اسمبلیوں میں ہماری نمائندگی موجود ہے مگر کبھی ہمارے علاقے کے مسائل حل نہیں ہوئے: "گٹر لائن خراب ہے۔ ہم 3 سال سے گندگی میں رہنے پہ مجبور ہیں مگر کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔"

جان مسیح نے مزید بتایا کہ بابری مسجد واقعہ کے بعد ملتان میں گرائے جانے والا سب سے قدیم مندر آج بھی دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جنوری 2021 میں کمیشن نے اس کا معائنہ کیا، رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی۔ اُس رپورٹ میں بھی بتایا گیا کہ مندر تاریخی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی تعمیرنو سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ مندر کی بحالی کے لیے اجازت ملنے کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کام رکوا دیا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مندر کیونکہ مزار کے بہت قریب ہے اس سے مذہبی ہم آہنگی برقرار نہیں رہ پائے گی اور اشتعال پھیلے گا۔

دوسری جانب ہندو برادری کے مذہبی رہنماء، پنڈت کشور لال، کا کہنا تھا کہ ہم ووٹ ضرور دیں گے اگر کوئی نمائندہ آ کر ہمیں یہ یقین دلائے کہ ہمارے لیے شمشاد گھاٹ بنایا جائے گا: "ہندو کمیونٹی کی تعداد تقریباً 11 ہزار ہے لیکن اُن کے مُردوں کے لیے اتنے بڑے شہر میں کوئی بندوبست نہیں۔ آپ بتائیے جب کوئی اپنا اِس دنیا سے جاتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے؟ اور اُس سے زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب آپ کو آخری رسومات ادا کرنے میں بھی تکلیف کا سامنا ہو۔ شہر کے آخری کونے، دریائے چناب، جا کر ہم اپنی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔ ضلع انتظامیہ کو کئی بار اِس حوالے سے درخواست بھی دی گئی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔" 

تاہم این اے 150 سے ن لیگی امیدوار جاوید اختر انصاری نے امید ظاہر کی کہ ڈبل پھاٹک کے اقلیتی ووٹرز انتخابات میں گھر سے باہر نکلیں گے: "میں جانتا ہوں اُن کو جانے انجانے میں نظرانداز کیا گیا ہو گا مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ ہماری حکومت اقتدار میں آئی تو اُن کے تمام مسائل حل ہوں گے۔ 1155 ووٹ ایک گیم چنیجر فِگر ہے؛ وہ اِس ملک کے شہری ہیں اور ناراضگی اُن کا حق ہے مگر ہم اپنی طرف سے اُن کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔"

رائٹر کا تعلق ملتان سے ہے ،ماس کمیونیکیشن گریجوایٹ ہیں،گزشتہ پانچ سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔

مزیدخبریں