پاکستان میں عام انتخابات 8 فروری 2024ء کو ہونے جارہے ہیں جو ملکی تاریخ کے بارہویں عام انتخابات ہوں گے اور اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی تیاریاں اور سرگرمیاں عروج پر ہیں۔
ووٹرز کا کم ٹرن آؤٹ الیکشن کے اخراجات یا فی ووٹر خرچ میں اضافے کا باعث بنتا ہے جو گزشتہ سالوں سے بڑھتا جارہا ہے اور 2024ء کے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کا تخمینہ 48 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ کے مطابق 13 دسمبر 2023ء تک پاکستان میں 12 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد بطور ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔
8 فروری کو ہونیوالے انتخابات کی کامیابی کا دار و مدار بہت حد تک ووٹر ٹرن آؤٹ پر ہوگا جو جمہوری عمل اور اس پر ہونیوالے اخراجات پر اپنا اثر چھوڑے گا۔ یہی ووٹر ٹرن آؤٹ ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ کا بھی درست تعین کرے گا۔
دوسری جانب ووٹرز کا کم ٹرن آؤٹ انتخابات پر ہونیوالے کل اخراجات کو بڑھا سکتا ہے جو پہلے ہی 2018ء کے انتخابات کی نسبت دوگُنا ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ان انتخابات کو ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات کہا جاسکتا ہے جن پر الیکشن کمیشن آف پاکستان 2008ء کے انتخابات کی نسبت 26 گُنا زیادہ خرچ کررہا ہے۔
پاکستان میں انتخابی اخراجات کے اعداد و شمار کے حوالے سے جامع سائنسی مطالعے اور کسی بھی شہری یا تنظیم کیلئے انتخابات پر خرچ ہونیوالے عوامی فنڈز کی معلومات تک رسائی کے فقدان کی وجہ سے اس موضوع پر تبصرہ یا رپورٹنگ مشکل ہے۔
تاہم متعلقہ حکام اور ماہرین سے بات چیت کے بعد 24 نیوز کے الیکشن سیل نے ماضی اور آئندہ عام انتخابات کے کل اخراجات اور فی ووٹر خرچ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2024ء کے انتخابی اخراجات کا تخمینہ 48 ارب روپے لگایا گیا ہے اور یہ وہ رقم ہے جو ضمنی گرانٹ کی یقین دہانی کے ساتھ گزشتہ وفاقی بجٹ میں منظور کی گئی تھی۔ یہ رقم 2008ء کے انتخابات کیلئے مختص کیے گئے 1.8 ارب روپے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
گزشتہ تین انتخابات میں فی ووٹر خرچ کو نیچے دیے گئے ٹیبل میں دکھایا گیا ہے جسے انتخابی اخراجات کو کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد پر تقسیم کرکے اخذ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں ووٹرز ٹرن آؤٹ مسلسل 45 فیصد سے نیچے رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ابتدائی مراحل میں جب عام انتخابات 2023ء کے آخر پر شیڈول تھے اس وقت الیکشن کمیشن کی جانب کل اخراجات کا تخمینہ 47 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ تاہم بعد میں سیکیورٹی کے بڑھتے اخراجات اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ کے اعلان سے قبل الیکشن کمیشن نے فنانس ڈویژن سے حتمی طور پر 69 ارب روپے کی مانگ کی۔
وفاقی سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال کے مطابق گزشتہ بجٹ سے قبل الیکشن کمیشن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بات چیت کے بعد آئندہ عام انتخابات کیلئے حکومت کی جانب سے 48 ارب روپے مختص کرنے پر اتفاق کیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 9 لاکھ سیکیورٹی اہلکار پولنگ کے دن پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات ہوں گے جبکہ سیکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشنوں پر تقریباً 90 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے جائیں گے۔
حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات میں تقریبا 3 لاکھ 10 ہزار پولنگ بوتھ پر مشتمل 90 ہزار 6 سو 75 پولنگ اسٹیشنز قائم کرے گا۔
ماہرین کے مطابق 2024ء کے عام انتخابات پر ہونے والے خرچ کو میسر اعداد و شمار کی بنیاد پر جانچہ تو جاسکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے خرچ کیے گئے بجٹ کے اصل اعداد و شمار انتخابات کے کچھ مہنیے بعد یا اگلے مالی سال کے آغاز پر ہی واضح ہوں گے۔
فنڈز میں اضافے کے حوالے سے ہونیوالی تنقید پر الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تمام عمل کو شفاف بنانے کیلئے ہرممکن اقدامات کیے جارہے ہیں اور الیکشن کمیشن کا تربیت یافتہ عملہ تمام تر سوالوں کے حوالے سے ریکارڈ رکھنے میں مصروف ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات کے بجٹ پر بات کرتے ہوئے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے سی ای او مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’ایک ڈپٹی کمشنر جو ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفیسر بھی ہے، اگر وہ الیکشن کی ڈیوٹی سرانجام دینے کیلئے اپنی سرکاری گاڑی استعمال کرے گا جیسا کہ ڈی آر او کو حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشن خود جا کر چیک کرنا ہوتے ہیں تو اس صورت میں وہ تمام اخراجات کون برداشت کرے گا‘۔
یہ انتخابات کے اخراجات میں ہی گنا جائے گا، جو ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بجٹ کا حصہ ہو یا شاید وفاقی حکومت کے اخراجات میں شامل ہوں۔ 2024ء کے عام انتخابات کیلئے 144 ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفیسر تعینات کیے گئے ہیں جن کے ساتھ کئی سو ریٹرنگ افسران بھی موجود ہوں گے۔
بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں حکومت بہت سے اخراجات برداشت کرتی ہے لیکن انہیں انتخابی اخراجات میں براہ راست شمار نہیں کیا جاتا۔ اس صورت میں انتخابات پر آنیوالے اخراجات کے اصل اعداد و شمار کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔
سرکاری اخراجات اس پہیلی کا صرف ایک حصہ ہیں۔ امیدوار خود قانونی طور پر 1 کروڑ روپے تک خرچ کرسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے 6 ہزار 4 سو 49 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے ہیں اور یہ تمام امیدوار قانونی طور پر انتخابی مہم میں ممکنہ طور پر 64.5 ارب روپے خرچ کرسکتے ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کا امیدوار 40 لاکھ روپے تک خرچ کرسکتے ہیں اور الیکشن کمیشن نے کل 16 ہزار 2 سو 62 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ امیددوار ممکنہ طور پر 65 ارب روپے خرچ کرسکتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو قانونی طور پر 129.5 ارب روپے یا تقریباً 1 ہزار روپے فی ووٹر خرچ کرنے کی اجازت ہے۔
بنیادی طور پر یہ قانونی اخراجات مکمل کہانی نہیں ہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں یا امیدوار آسانی سے کسی بھی ادارے کے علم میں لائے بغیر زیادہ خرچ کرسکتے ہیں۔
مدثر رضوی مزید کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا پیسہ انتخابات میں خرچ کیا جاتا ہے تاکہ کالے دھن کو سفید کیا جاسکے لیکن اس مفروضے کو ثابت کرنے کیلئے بھی ٹھوس شواہد موجود نہیں۔
ان تمام تر تفصیلات کے بعد اگر انتخابی اخراجات کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انتخابات سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کیلئے سستا سودا نہیں تو دوسری طرف سرکار کو بھی اس عمل کو کامیابی سے مکمل کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کے ذریعے بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ 1970ء سے لیکر اب تک ہونے والے تمام عام انتخابات ماضی کے مقابلے میں ہمیشہ بھاری ہوتے گئے اور اسی لیے کہا جارہا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہوں گے۔