(24 نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں سے جبری مشقت کرانے کے حقائق جاننے کیلئے کمیشن قائم کر دیا، ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کمیشن ایک ماہ میں حقائق کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے اکیسویں صدی میں یہ غلامی کی بدترین قسم ہے جس طرح بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے،بازیاب ہونے والے بچوں کی تعلیم اور ویلفیئر کا معاملہ بھی ریاست دیکھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بچوں سے جبری مشقت کرانے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات اینٹوں کے بھٹے سے بازیاب کرائے گئے بچوں کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ بھٹہ مالک کو گرفتار کر لیا ہے تفصیلات لے رہے ہیں جس کے بعد اینٹوں کے بھٹوں کا آڈٹ کریں گے، تمام مدارس اور دیگر جگہوں پر سروے کرا رہے ہیں کہ وہاں بچوں اور ملازمین کو کن شرائط پر رکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا لوگوں کے کاروبار بند ہوتے ہیں تو ہو جائیں لیکن جبری مشقت برداشت نہیں ہو گی، بھٹوں والے بچوں کے والدین کو قرض دیتے ہیں پھر ان کے بچوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں،عدالت نے کہاکہ مہینے کے بعد آپ آکر عدالت کو بتائیں کہ اب ایک بھی جبری مشقت کا کیس نہیں رہ گیا،بچوں کو اغوا کر کے ان کو جبری غلام کی طرح رکھنا ، اس سے بڑا کوئی ظلم ہو نہیں سکتا ، اس کیس کو ایسی مثال بنائیں گے کہ آئندہ کوئی ایسا ظلم کرنے کی ہمت نہ کرے۔
بچوں سے جبری مشقت کرانے کے حقائق جاننے کیلئے کمیشن قائم
Jan 02, 2021 | 17:59:PM