امتحان

ظہیر احمد کاہلوں

Jan 02, 2023 | 12:28:PM
امتحان
کیپشن: ظہیر احمد کاہلوں
سورس: 24 NEWS
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

زندگی کچھ بھی نہیں فقط جزا اور سزا کے۔۔۔۔۔جزا اور سزا کا فیصلہ امتحان کے بعد ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ امتحان۔۔۔ہر لمحہ امتحان۔۔۔۔کون کس لمحے چوکا ۔۔کون کس پل آنکھ جھپکا۔۔۔ کب جام چھلکا۔۔۔۔ بس اسی کا تو شمار ہے۔۔۔ 
میں جہاں آنکھ جھپکوں گی
وہیں پر حادثہ ہو گا

جوانی امتحان۔۔۔حسن امتحان۔۔۔تاج و تحت امتحان۔۔۔طاقت امتحان ۔۔غریبی امتحان ۔۔معذوری امتحان ۔۔پیسہ امتحان ۔۔۔دوستی امتحان ۔۔دشمنی امتحان۔۔۔محبت امتحان ۔۔نفرت امتحان۔۔۔۔۔اولاد امتحان۔۔۔ہمسایہ امتحان ۔۔سفر امتحان۔۔۔منزل امتحان ۔۔۔علم امتحان ۔۔۔جہالت امتحان۔۔۔۔غرض ایک ایک قدم امتحان ہے۔۔۔ جس کا نتیجہ سزا اور جزا ہے ۔۔۔

ضرور پڑھیں :اللہ کرے تم مرجاؤ!

کسی ملک میں جنگل کنارے ایک گاؤں تھا ۔وہاں ایک بوڑھا اپنے جوان بیٹے اور ایک خوبصورت گھوڑے کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔اس کا جوان خوبرو بیٹا جب گھوڑے پر بیٹھتا تو سب عش عش کرتے ۔۔۔۔۔ایک دن اس کا گھوڑا جنگل میں چرنے گیا اور واپس نہ آیا ۔۔۔سارے گاؤں والے افسوس کرنے آ گئے کہ اتنا خوبصورت گھوڑا تھا جو کھو گیا ۔۔اس بوڑھے نے جواب دیا کوئی بات نہیں ۔۔۔اتنے سال اللہ نے اس نعمت سے نوازا بھی تو تھا اب اگر اس نے اپنی نعمت واپس لے لی تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔کچھ دن بعد اس کا گھوڑا جنگل سے خود ہی واپس آ گیا۔۔۔اور اس کے ساتھ تین اور جنگلی خوب پلے ہوئے صحت مند گھوڑے بھی تھے ۔اب پھر گاؤں والے مبارک دینے آئے۔۔کہ کیا قسمت ہے ۔۔مگر اس چھوٹے نے جواب دیا یہ بھی اللہ کا انعام ہے بس ۔۔۔کبھی نوازتا ہے کبھی واپس لے لیتا ہے۔۔اس کو بس اسی طرح لینا چاہیے جیسا گھوڑے کا گم ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی ویسے ہی اب چار گھوڑے ہو جانا بھی  کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔کچھ دن بعد بوڑھے کا بیٹا ان نئے گھوڑوں کو سدھارتے ہوئے گر جاتا ہے اور اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے ۔۔اب پھر گاؤں والے افسوس کرنے آتے ہیں ۔ ۔کہ ایک ہی بیٹا تھا۔۔۔اس کی بھی ٹانگ ٹوٹ گئی۔۔۔جوان بیٹا معذور ہو گیا۔۔۔۔بوڑھے نے جواب دیا۔۔کہ تئیس چوبیس سال میرا بیٹا دونوں ٹانگوں کے ساتھ میرے پاس تھا تو بھی اس کا شکر تھا اب اگر ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے تو بھی اس کا شکر ہے۔۔۔۔اس کی نعمتیں ہیں کبھی لے لیتا ہے کبھی دے دیتا ہے ۔۔اس کو بس اتنا ہی جاننا چاہیئے ۔۔۔گاوں والے کہتے کہ یہ کیسا عجیب شخص ہے ۔۔نہ پریشانی میں دکھی ہوتا ہے نہ خوشی میں خوش۔۔۔ کچھ دن بعد ہی اس ملک کی ہمسایہ ملک سے جنگ چھڑ جاتی ہے ۔۔اور فوج کم پڑ جاتی ہے۔۔۔بادشاہ مزید بھرتی کا حکم دیتا ہے اور تمام جوانون کو زبردستی فوج میں شامل کرنے کے لیے لے جایا جاتا ہے۔۔ اس گاؤں میں فقط اسی بوڑھے کا بیٹا بچتا ہے کیونکہ اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوتی ہے۔۔۔۔

اب سارے گاؤں والے پھر اسے مبارک دینے آتے ہیں کہ تمھارا بیٹا تمھارے پاس تو ہے ہمارے تو پتہ نہیں ذن نہیں ذندہ بچتے بھی ہیں یا نہیں ۔۔۔بوڑھا کہتا کہ ابھی کچھ دن پہلے جس بات پر مجھ سے افسوس کر رہے تھے اب اسی بات پہ مبارکباد ۔۔۔۔عجیب لوگ ہو۔۔۔۔ایسے ہی ہر لمحہ کسی امتحان کا ہی کوئی حصہ ہے۔۔۔۔۔پیسے والا کب کسی کو حقارت سے دیکھ کر سب کچھ لٹا بیٹھے کون جانے ۔۔۔۔حسن والا کب ہوش گنوا دے۔۔۔کسے خبر۔۔۔۔جوانی کب نادانی بنے ۔۔۔کسے پتہ۔۔۔۔۔بس ایک لمحے کی چوک ۔۔۔اور حادثہ۔۔۔۔ایسا کہ تن من دھن۔۔۔لٹ جائے۔


ہم اس امتحان میں بیٹھے ہیں جس میں کب ہمارے ہاتھ سے پرچہ چھین لیا جائے کوئی نہیں جانتا ۔۔ اس امتحان میں کوئی مقررہ وقت ہی نہیں۔۔۔۔یہ ایسا امتحان ہے جس کے سارے سوال پہلے ہی آؤٹ ہیں ۔۔۔ہمیں سارے جوابوں کا بتا دیا گیا ہے۔۔۔۔مگر پھر بھی ہم اس امتحان گاہ میں بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ ساتھ والا کس گاڑی پر آیا ہو گا۔۔۔ آگے والے نے گھڑی کتنے کی پہنی ہو گی۔۔۔۔پیچھے والا بڑا امیر ہے اس کے کپڑے کتنے مہنگے ہیں۔۔۔۔۔اس امتحان میں جہاں کوئی یہ آواز  نہیں لگا رہا کہ اتنے منٹ رہ گئے ۔۔۔اتناوقت ہے آپ کے پاس ۔۔یہاں تو بس پرچہ چھینا جانا ہے۔۔۔کسی بھی پل۔ کسی بھی ساعت۔۔۔۔۔۔۔۔جواب سارے آتے ہیں۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔ ہائے غفلت