جنوری کے پہلے بڑا سرپرائز ،عمران خان کے اقتدار میں آنے سے کیا تباہی ہوگی؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
8فروری کے انتخابات سے امید تو یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو گا لیکن معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے جتنا ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سیم پییج پر نہیں ہیں ۔جسٹس منیر کی عدالت ہوں یا جسٹس قیوم ، کی بندیال کورٹ ہو ثاقب نثار کی کچہری ان سب میں ایک چیز مشترک تھی کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کر کے نام نہاد نظریہ ضرورت کو پروان چڑھانے کا الزام تھا۔۔ لیکن تاریخ میں پہلی بار گزشتہ کچھ ہفتوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بظاہر آمنے سامنے ہیں ۔ پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ بظاہر اس اختلاف کی پہلی کڑی الیکشن کی تاریخ اناونس کرنے سے ہوئی لیکن بعد میں تحریک انصاف کی ایک درخواست اور الیکشن کے حوالےسے شکوک شبات کے جنم لینے کے بعد سپریم کورٹ کا مداخلت کرنا اور ہر صورت الیکشن مقررہ وقت پر کرانے کی ہدایت نے اضطراب کی کیفیت کو جنم دیا۔اس کے علاوہ یہ ریاست اس بات سے بھی پریشان ہے کہ عدالتیں مسلسل نو مئی کے کرداروں کو ریلیف فراہم کر رہی ہے۔وہی کردار جنہوں نے پہلے معیشت کا جنازہ نکالا بعد میں نو مئی کے سانحہ کی صورت میں ملک کی سالمیت پر شب خون مارنے کی کوشش کی ۔ریاستی قاضی القضا کو یہ سمجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ نو مئی والے وہی کردار ہیں جنہوں نے آپ کے خلاف بھی ریفرنس بنا کر آپ کو راستے ہٹانے کی کوشش کی ۔لیکن دوسری طرف عدلیہ کا واضع موقف ہے کہ عدالتیں تمام فیصلے آئین کے اندر رہ کر رہی ہیں آئین کے اندر جو حقوق ہر شہری کو دیئے گئے ہیں وہی حقوق نو مئی والوں کے دیے جار ہے ہیں ۔ریاست کو اس چیز کا ادارک ہے کہ اگر نو مئی والے دوبارہ سے اقتدار میں آئے تو تو ملک ڈیفالٹ کرجائیگا سب سیاستدانوں کو پھر جیل میں ڈال دیگا، ایک بار پھر گوگی اور پنکی کا راج ہوگا، نابالغوں کی کابینہ ہوگی میڈیا کا ناطقہ تنگ ہوگا فوج کے ساتھ تو باقاعدہ محاذ آرائی ہوگی۔ لیکن عدالتیں سمجھتی ہے کہ طوفان آئے یا زلزلہ آئے ہمارا کام صرف انصاف ہے ہمیں نتائج سے غرض نہیں نتائج کو دیکھنا ریاست کا کام ہے، ہم اپنے اعمال اور اپنے انصاف کردہ فیصلوں کے جوابدہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن میں شفافیت ہو لوگ ریاست اور عدالت کی عزت کریں اس کی تذلیل نہ کریں۔ عوام کے فیصلوں کو قبول کریں گے تب ہی آگے بڑھیں گے۔ریاست نے ملک و قو م کےحوالے سے لیے گئے عدالتی فیصلوں پر پلکیں بچھائی ۔8 فروری کو انتخابات کرانے کے لیے کمر کسی ۔دورہ امریکہ ہو۔کو کمانڈر کانفرنس ہو یا کسانوں سے خطاب آرمی چیف دو ٹوک انداز میں مقررہ وقت پر انتخابات میں مدد فراہم کرنے کا علان کیا۔ لیکن ریاست کسی بھی طور نو مئی کے کرداروں کو بخشنے کو تیار نہیں لیکن عدلیہ کی طرف سے ریاستی پالیسویں کے خلاف فیصلے معاملے کو بگاڑ رہے ہیں ا ور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ اختلاف مزید گہر ا ہوگا۔کیونکہ رواں ہفتے کچھ اہم مقدمات کی سماعت ملک کی بڑی عدالتوں میں ہونے جا رہی ہے۔کل تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت ہو گی جس کے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔اسی طرح تین جنوری کو لیول پلئنگ فیلڈ کے حوالے سے بھی تین رکنی بینچ تشکیل دیا جا چکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی صدار ت میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالہ بینچ کا حصہ ہوں گے ۔پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق سماعت بھی نو جنوری کو مقرر ہے۔یہ وہ کیس جن کے فیصلے بتائیں گے کہ دونوں اداروں کے درمیان تناو کی کیفیت کس حد تک ہے۔کیونکہ ریاست ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے خواہشمند ہے کہ جب عدالتیں آئین اور قانون کے تحت معاملے کو چلانے پر بضد ہیں ۔اگر عدالتیں ان کیسز میں پہلے کی طرح دوبارہ سے پی ٹی آئی کو ریلیف دیتی ہے تو یقینا یہ مبینہ تناو میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی نظریں صرف اور صرف عدلیہ پر ٹکی ہیں وہ اپنی ہر مشکل کا حل عدالتوں کو ہی گردان رہے ہیں ۔ان کے مطابق عدلیہ واحد امید ہے اگر اس وقت عدلیہ نے اپنا مثبت رول ادا نہ کیا تو پھر ساری خرابی کی ذمہ داری عدلیہ پر جائے گی۔جنوری کے پہلے بڑا سرپرائز ،عمران خان کے اقتدار میں آنے سے کیا تباہی ہوگی؟