آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی 5 سال ہے، چیف جسٹس
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز ) آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیخلاف اوپن کیس کی سماعت کے درمیان چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے پر نااہلی 5 سال ہے۔
چیف جسٹس نے دیگر وکلاء سے بھی استفسار کیا اور کہا کہ اور کون اس قانون کی مخالفت کرتا ہے؟ثنااللہ بلوچ نے کہا کہ میں متاثرہ فریق ہوں میں عدالتی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں ، چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ ایسی باتیں مت کریں، یہ عدالتی بالادستی کیا ہوتی ہے، میں نے آئینی بالادستی کا تو سنا تھا، ثنااللہ بلوچ نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور تریسٹھ 50 سال سے موجود ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے جھوٹ کی بنیاد پر تاحیات نااہلی ہوگی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قتل اور غداری کیسز میں کچھ عرصہ کی نااہلی کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جاسکتا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل ثنااللہ سے سوال کیا کہ کیس کو چھوڑیں آپ اپنی رائے بتائیں ، ثنااللہ بلوچ نے کہا کہ اگر کوئی انتخابی عمل کے انٹری پوائنٹ پر ہی جھوٹ بولے تو اس پر تاحیات نااہلی ہوگی ، جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ آپ یہ کہنا چاہتے کہ اگر کوئی 24 سال کا ہے الیکشن لڑنے کیلئے کہے وہ 25 سال کا ہے تو تاحیات نااہلی ہوگی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ عدالت کسی شخص کے خلاف ڈکلیئریشن کیسے دے سکتی؟ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کیا سپریم کورٹ نے ڈکلئیریشن ازخود اختیار استعمال کر کے دی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے پر نااہلی 5 سال ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایک شخص پرمقدمہ ہو وہ 2سال سزا کاٹ کر واپس آ سکتا ، مگر ایک شخص کے خلاف مقدمہ نا ہو بلکہ ڈکلئیریشن آ جائے تو وہ دوبارہ آ ہی نہیں سکتا۔
یہ بھی پڑھیں ؛ مسلمان "صادق" اور "امین" کے لفظ آخری نبیؐ کے سوا کسی کیلئے استعمال کر ہی نہیں سکتا، چیف جسٹس