بجلی بلوں پر31 ٹیکسز،حکمرانوں کی عیاشیاں،مفت بجلی دینے کے وعدے کہاں گئے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)فنانس بل 2024.2025 کی منظوری کے ساتھ ہی نئے مالی سال کا آغاز ہوا چاہتا ہےاور اِس نئے مالی سال کی ابتدا کے ساتھ ہی عام آدمی کی زندگی یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔آج کے بعد سے تنخواہ پہ اضافی ٹیکس،جائیداد کی خریدو فروخت پر ٹیکس ۔بڑی سڑک پر سفر کرنے پر 30 فیصد اضافی ٹول ٹیکس۔ہوئی سفر کرنے پر 12 فیصد اضافی ٹیکس۔گیس کے استعمال پر بھاری ٹیکس۔بجلی کے بل پر 40 فیصد کے ٹیکسز یعنی عام آدمی کو ٹیکسز کے نئے جال میں جکڑنے کی بھرپور تیاری ہوچکی۔شائد یہی وجہ ہے کہ عوام سڑکوں پر تاجر سڑکوں پراور اپوزیشن بھی سڑکوں پر دکھائی دے رہی ہے۔
پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے بتایا کہ اب بل میں لگنے والے ٹیکسز کا ذکر کریں تو اُن میں سے ایک فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ،ایف پی اے پر ٹیکس،ایف پی اے پر ایکسٹرا ٹیکس،ایف پی اے پر مزید ٹیکس،ایف پی اے پر انکم ٹیکس،ای ڈی آن ایف پی اے ،ایف پی اے پر آر ایس ٹیکسمیٹر رینٹ،سرس رینٹ،کواٹرلی ٹریفک ایڈجسٹمنٹ،ایف سی سر چارج،الیکٹرک سٹی ڈیوٹی،ٹی وی فیس،جی ایس ٹی،انکم ٹیکس،ایکسٹرا ٹیکس،مزید ٹیکس،آر ایس ٹیکس سمیت مزید پوشید ٹیکس شامل ہیں ۔
اب بجلی کا یونٹ بجلی کے استعمال کے حساب سے بڑھے گا۔اِس کیلئے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔جیسا کہ کمرشل استعمال کیلئے بجلی کی قیمت 37.50 روپے فکسڈ ہے۔یعنی اگر بجلی 700 یونٹس استعمال ہو یا پھر 900 یونٹس کا استعمال ۔ بجلی کا فی یونٹ 37.50 ہی رہے گا لیکن گھریلو صارفین کیلئے ایسا نہیں ہے ۔اب آپ دیکھئے بجلی کے بِل میں 200 یونٹ استعمال کرنے پر آپ کا بجلی کا بِل 3000 روپے سے 3500 روپے تک آتا ہے۔ جبکہ اگر آپ 201 یونٹ استعمال کریں تو اسی بِل میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور آپ کو 8500 روپے سے لے کر 9000 روپے کا بِل ادا کرنا پڑسکتا ہے۔
بجلی صرف کرنے کے مطابق گھریلوں صارفین کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے، جنہیں محفوظ (Protected) اور غیر محفوظ (Non-Protected) صارفین کے نام دیے گئے ہیں اور دونوں کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت مختلف ہے۔محفوظ صارف وہ ہے جو مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھ مہینے تک 200 یونٹس تک بجلی کا استعمال کرتا ہے ۔اگر وہ غیر مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہے اور چھ مہینوں میں سے کسی بھی مہینے 200یونٹس سے زیادہ خرچ کرتا ہے تو صارف کو کم ریٹس کی سہولت نہیں دی جاتی اور ان پر غیر محفوظ صارفین کے لیے بنائے گئے نرخوں کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
غیر محفوظ صارف اگر 200 یونٹس تک بجلی کا استعمال کرے تو یہ 27.14 فی یونٹ کے حساب سے اِس کو چارج کیا جائے گا۔ لیکن اگر جیسے ہی وہ 201 یونٹ تجاوز کرجاتی ہے تو پھر بجلی کی فی یونٹ قیمت 27.14 روپے ہوجائے گی ۔اِس طرح 301 یونٹ پر بجلی کا فی یونٹ 32.03 ہوجائے گا۔یعنی جیسے بجلی کے یونٹس کا استعمال بڑھے گا تو بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی اُس اعتبار سے بڑھتی چلی جائے گی ۔یعنی بجلی بل چارج کرنے کا کوئی فکسڈ پیمانہ نہیں اور صارف کو یہ واضح تک نہیں ہے کہ ایک یونٹ کے فرق سے وہ ہزاروں روپے کے زائد کا بل کس مد میں دے رہا ہے؟اور ستم دیکھئے کہ بجلی کے بل میں طرح طرح کے ٹیکسز بھی لگے ہوتے ہیں ۔ ہم اُن ٹیکسز کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اِس کے بعد ہم آپ کو ایک بجلی کے بل کا پوسٹ مارٹم بھی کرکے دکھائیں گے کہ اصل بل کی رقم کیا ہے اور ٹیکسز لگنے کے بعد بل کہاں تک جا پہنچتا ہے ۔
بجلی کے بل میں ایک ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا ہے۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو سمجھنے کے لیے ایکچوئل فیول کاسٹ اور ریفرنس فیول کاسٹ سمجھنا ضروری ہے۔ہر مالی سال کے آغاز میں نیپرا ایک ریفرنس فیول کاسٹ دیتا ہے۔ یعنی ایک ایسا حوالہ جس سے ہر ماہ ایندھن پر آنے والی کل لاگت کا موازنہ کیا جا سکے۔ایک مہینے میں بجلی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کُل لاگت دراصل ملک میں توانائی کے مختلف ذرائع میں استعمال ہونے والے ایندھن جیسے کوئلہ، ایل این جی، فرنس آئل پر آنے والی لاگت کے اعتبار سے نکالی جاتی ہے۔یوں ہر ماہ کے اختتام پر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ کا موازنہ ریفرنس فیول کاسٹ سے کیا جاتا ہے اور اسی حساب سے یہ ایڈجسٹمنٹ دو ماہ کے بعد بجلی کے بلوں میں لگ کر آتی ہے۔اگر اُس ماہ مجموعی فیول کاسٹ، ریفرنس کاسٹ سے زیادہ ہو تو آپ کے بل میں ایف پی اے کی مد میں اضافہ ہو گا جبکہ اگر اس ماہ کی مجموعی فیول کاسٹ ریفرنس کاسٹ سے کم ہو تو ایف پی اے کی مد میں کمی آتی ہے۔ اِسے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں۔پھر اِسی طرح بجلی کے بل کے بائیں طرف چھٹے خانے میں فنانس کاسٹ سرچارج درج ہوتا ہے۔ جو وفاقی حکومت فی کلو واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے وصول کرتی ہے۔ لیکن یہ کم یونٹس خرچ کرنے والے گھریلو صارفین پر لاگو نہیں ہوتا۔
وفاقی حکومت نے یکم جولائی 2023 سے فنانسنگ کاسٹ سرچارج وصول کرنا شروع کیا تھا، جس کا مقصد پاور سیکٹر کے قرضوں اور واجبات کی مالی اعانت کے لیے 335 ارب روپے جمع کرنا تھا، جن کا کل حجم جو کہ 2.6 ٹریلین روپے ہے۔پھر اِسی طرح سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ڈسٹری بیوشن مارجن چارجز بھی بجلی کے بل میں شامل ہوتے ہیں ۔ اور ان کا مقصد بین الاقوامی منڈی اور اس کیمصنوعات، فرنس آئل، کوئلے اور آر ایل این جی کی قیمتوں میں کمی بیشی کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔اب ہم حکومت کی جانب سے بجلی صارفین پر لاگو ہونے والے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا ذکر کریں گے۔حکومتی ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی تفصیلات بل کے درمیان کے حصے میں درج ہوتی ہیں۔وفاقی حکومت بجلی صارفین سے 1.5 فیصد کی شرح سے بجلی کی لاگت، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ڈسٹری بیوشن مارجن چارجز پر ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔ جو بل میں حکومتی چارجز والے حصے کے پہلے خانے میں درج ہوتی ہے۔بجلی کے بل میں ہر صارف سے ماہانہ 35 روپے ٹی وی فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔پھر اِسی طرح وفاقی حکومت 17 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی یا جنرل سیلز ٹیکس وصول کرتی ہے اور یہ بجلی کی لاگت، سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ڈسٹری بیوشن مارجن چارجز، الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور فنانس کاسٹ سرچارج پر لاگو ہوتا ہے۔بجلی کے بل کے بالکل دائیں جانب والے حصے میں مجموعی چارجز درج کیے جاتے ہیں۔اس حصے کے دوسرے خانے میں موجودہ بل یا کرنٹ بل کے خانے میں ایف پی کے علاوہ بجلی کی قیمت اور دوسرے ٹیکسز و ڈیوٹیز کا مجموعہ درج ہوتا ہے، جبکہ چھٹے خانے میں کل ایف پی اے کی رقم درج کی جاتی ہے اور ان دونوں رقوم کے مجموعے سے واجب الادا بل کی رقم نکالی جاتی ہے۔
اب ہم آتے ہیں بجلی کے بل کی طرف ابھی ہم نے جن ٹیکسز کا ذکر کیا اِس کے بعد بل کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔یہ ایک صارف کا بجلی کا بل ہے جس نے 789 یونٹس استعمال کئے ہیں ۔اب اِس پر جو اصل بجلی کی قیمت بنی ہے وہ 33 ہزار 706 اعشاریہ 17 فیصد بنی ہے ۔اب اِس میں لیسکو نے 729.16 روپے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ڈالا ہے۔پھر ایف سی سرچارج 2548.47 روپے ڈالا ہے۔پھر کوٹر ٹریفک ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 2169.12 روپے ڈالے گئے ۔لیسکو کے یہ ٹوٹل اخراجات ملائیں تو اب تک صارف کے بجلی کا بل 39152.92 بنتا ہے ۔اب حکومت کے نافذ کردہ چارجز پر آتے ہیں ۔حکومت نے الیکٹریکسٹی ڈیوٹی 538.13 روہے ڈالی ہے۔ٹی وی فیس 35 روپے بھی شامل کی گئی ہے۔جنرل سیلز ٹیکس کی بات کریں تو وہ 7013 روپے ہے ۔پھر ایف پی اے پر بھی جی ایس ٹی ڈالا گیا ہے اور وہ 133 روپے ہے۔اِسی طرح ای ڈی آن ایف پی اے 10.94 روپے رکھا گیا ہے ۔اب حکومت کے اِن اخراجات کو ٹوٹل کریں تو 11178.07 روپے بن رہے ہیں اب لیسکو اور حکومتی اخراجات کو ٹوٹل کریں تو 50 ہزار 331 روپے بنتا ہے۔یعنی اگر اصل بل کی رقم میں یہ ٹیکس شامل کریں تو16 ہزار 624 روپے اضافی چارج کئے گئے ہیں ۔اب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔حکومتی نمائندے صرف عوام پر اپنا زور چلا رہے ہیں ۔بجلی چوری کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری کے مطابق بجلی چوری کاتخمینہ 600 ارب روپے سالانہ تک جا پہنچا ہے اور گزشتہ روز ملک میں چھ ہزار میگاواٹ فاضل بجلی موجود ہونے کے باوجود صارفین کو اس لیے فراہم نہیں کی گئی کیونکہ ایسا کیا جاتا تو دو ڈھائی ارب روپے کا مزید نقصان ہوتا۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ جن فیڈرز کو بجلی درکار تھی وہ کنڈوں اور غیرقانونی ٹرانسفارمرز پر ہیں۔اگر ان کو بجلی دی جائے تو اس کا بوجھ میٹر والے جائز صارفین پر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لائن مین کنڈا ہٹانے جاتا ہے تو مجمع جمع ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ کنڈا نہیں ہٹاتے کیا کرلو گے جبکہ ہمارے بعض اہلکاربھی لوگوں کو میٹر کے بجائے کنڈا لگانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وزیر توانائی کے مطابق پیسکو اور قبائلی علاقوں میں 137ارب ، سندھ میں51ارب، پنجاب میں133ارب ،بلوچستان میں100ارب جبکہ پشاور، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان،نوشہرہ اور چار سدہ میں 65ارب روپے سالانہ کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ متوسط طبقہ بجلی چوری اور لیودشیڈنگ کا عذاب بھی برداشت کر رہا ہے لیکن بل سب سے زیادہ ادا کر رہا ہے۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں