کس قانون کے تحت کمسن بچوں کو بند کیا جارہا ہے؟لاہور ہائیکورٹ پولیس پر برہم
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ملک اشرف سے)لاہور ہائیکورٹ نے کمسن بچوں کی گرفتاری پر پولیس پر برہمی کا اظہار کر دیا،عدالت نے متعلقہ محکموں کی جانب سے بچوں کی گرفتاری کے متعلق جمع جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔
کم سن بچوں کی گرفتاری کے حوالے سے جسٹس علی ضیاء باجوہ کا پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کس قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر بچوں کو تھانوں میں بند کیا جارہا ہے، جیونئیل سسٹم ایکٹ کے تحت کم عمر بچے کو گرفتار نہیں جا سکتا ہے ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کم عمر بچوں کو تھانوں میں نہیں رکھا جاسکتا ، اس کے لئے سپیشل سنٹر بننے تھے ، 18 سال سے کم عمر ملزم بچوں کو رکھنے کے لئے جو سپیشل سنٹر بننے تھے کیوں نہیں بنائے،جیونئیل سسٹم ایکٹ کے تحت عام مقدمات میں ایس ایچ او کم سن بچوں کی ضمانت لے سکتا ہے، عدالت نے متعلقہ محکموں کی جانب سے بچوں کی گرفتاری کے متعلق جمع جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو کمیٹیاں ہر ضلع لیول پر بنی تھیں آج تک کیوں نہیں بنیں۔عدالت نے وفاقی حکومت ، آئی جی پنجاب ، آئی جی جیل خانہ جات سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔ عدات نے آئندہ سماعت پر متعلقہ محکموں کےسنئیر افسران کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریحانہ بی بی کی جانب سے بچے کی بازیابی کی درخواست پر حکم جاری کیا،غلط بیانی پر درخواست گزار خاتون اور اس کے وکیل کو توہین عدالت کارروائی کیلئے شوکاز نوٹس جاری کیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں پولیس کی حراست سے دس سالہ بچے کی بازیابی کے کیس کی سماعت ہوئی،درخواست گزار خاتون نے اپنے 10 سالہ پوتے کی بازیابی کے لیےعدالت سے رجوع کیا تھا۔
پولیس نے موقف اختیار کیا کہ بچے کو چوری کے مقدمہ میں گرفتار کیا ، غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا ، عدالت نے دس سال کے بچے کی چوری کے مقدمہ میں تھانے کی حوالات میں بند رکھنے پر اظہار ناراضگی کیا۔پنجاب حکومت کی جانب سے اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل شاہد نواب چیمہ پیش ہوئے۔