لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے سمی دین اور ماہرنگ بلوچ جیسی فعال خواتین کی پُرامن سیاسی جدوجہد بلوچستان میں عرصہ دراز سے جاری مسلح بغاوت کی راہ ہموار بنانے کے علاوہ سرمچاروں کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، کیونکہ ایسی ملتبس تحریکوں کو عام طور پر مغربی اقوام انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوری آزادیوں کے محرک کے طور پر سراہاتی ہیں، جیسے ابتداءمیں بہار عرب کو سراہا گیا تھا تاہم ان پیچیدہ عوامل کو سمجھنا ضروری ہے کہ مسلح تشدد کے ساتھ کوآرڈینشن کے ذریعے سیاسی احتجاج کس قدرکامیاب یا کیسے ناکام ہو سکتے ہیں ؟
بلاشبہ ناکام عوامی بغاوتیں تباہ کن نتائج لاتی ہیں جیسے 10 سالوں پہ محیط بہار عرب کی کوکھ سے نمودار ہونے والے مسلح تنازعات لیبیا، شام اور یمن میں کم و بیش 4 لاکھ انسانوں کی جان لینے کے علاوہ کئی مضبوط ریاستوں کو کمزورکرنے کا سبب بنے، اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو بھی عام طور پہ پُرامن سیاسی احتجاج اپنے ساتھ منظم تشدد کی موروثی صلاحیت لے کر چلتے ہیں، پہلے مظاہرین اور حکومتی فورسز کے درمیان تعاملات تحریکوں کو پُرامن سے متشدد اختلاف کی طرف لے جاتے ہیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی قیادت جلد یہ نتیجہ اخذ کر لیتی ہے کہ عدم تشدد ناکام اور صرف تشدد ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
لیکن آج کی بلوچ قیادت اور ہمارے پالیسی سازوں کو برعکس صورت حال کا سامنا ہے، یہاں مسلح بغاوتوں کی کوکھ سے ایک ایسی پُرامن سیاسی تحریک وجود پا رہی ہے جو بلآخر مسلح باغیوں کی پُرتشدد کاروائیوں کا معقول لباس بنے گی یعنی متذکرہ احتجاج ریاست کی قوت قہرہ کو کندکرکے مملکت کے خلاف تشدد کو قانونی جواز مہیا کرنے کے علاوہ غیر ریاستی عناصر کے ذریعے منظم تشدد کی راہ ہموار بنا سکتا ہے، اس وقت مسنگ پرسن کی بازیابی کے حوالہ سے اٹھنے والی احتجاجی تحریک کے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ مسلح گروہوں کو حکومت سے لڑنے کے لیے جواز، وسائل اور نقاب ابہام فراہم کرے گی، گویا ماہرنگ بلوچ کی تحریک کا واضح مفہوم یہ ہے کہ سیاسی احتجاج کی پشت پہ کھڑی مسلح جدوجہد کے ذریعے معاشرے کو خانہ جنگی کی طرف بڑھایا جائے، لاریب، اس متنوع تحریک کے نتائج دنیا بھر میں پالیسی سازوں کے لئے حیران کن ثابت ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کالے بھونڈ کے فضائل
ماہرین کا خیال ہے کہ مسلح گروہوں کو غیر فعال کرنے کے لئے سماجی آزادیوں کو وسعت ملنی چاہئے لیکن ہمارے نظام میں مذہبی فعالیت کی بدولت سماجی آزادیاں بتدریج کم اور ثقافتی سرگرمیاں ماند پڑتی گئیں، اسی طرح مقامی اقتصادی ترقی بھی مسلح تصادم میں اضافہ کو روک سکتی تھی کیونکہ غریب علاقوں میں خانہ جنگی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، احساس محرومی روایتی احتجاج کو پُرتشدد تصادم میں بدلنے کے امکانات بڑھاتا ہے، چنانچہ اسیے خطرات کو کم کرنے کے لئے مادی اور سماجی سیکٹر میں سرمایہ کاری ضروری تھی، یہی وجہ ہے جو باغیانہ مقاصد رکھنے والی بلوچ تنظیمیں غربت کو ختم کرنے والے ترقیاتی عمل کے خلاف مزاحمت کرتی رہیں، آج بھی بلوچ سرمچاروں کی ترجحی اؤل یہی ہے کہ مسلح جدوجہد اور سیاسی مظاہروں کا سنڈروم پیدا کرکے ترقی اور خوشحالی کے امکانات کو بریک لگائی جائے ۔
علی ہذالقیاس، پاکستانی ریاست کے قیام کے ساتھ رابع صدی سے بلوچستان میں مسلح احتجاج اور بغاوتیں سیاسی اور سماجی منظرنامہ پہ ہویدہ نظر آتی ہیں،شاید بلوچستان کے سیاسی مستقبل کے لیے مسلح مزاحمت کا کلچر دانستہ اس گداز معاشرے کو مہیب خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی وسیع سکیم کا حصہ ہو ، بدقسمتی سے عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر فوجی آمریتوں نے ہمارے معاشرے میں فرقہ وارانہ تقسیم اور نسلی تعصبات کو تصادم تک پھیلنے کے مواقع دیئے، انہی عوامل نے مسلح گروہوں کی تشکیل کو مزید جواز فراہم کیا ، چنانچہ قدیم سماجی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی وحشیانہ جبر اور بڑھتے ہوئے مایوسی کے ردعمل کی وجہ سے جلد ہی ٹوٹ گئی، اسی خلاء سے فائدہ اٹھا کر مسلح قوتیں پُرامن سیاسی مظاہرین کے شراکت دار کے طور پر سیاسی عمل میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔
اب مسلح گروہوں کی اسی شراکت داری کو کچھ لوگ تحریکوں کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں بلکہ آج تو سیاسی جماعتوں کے لیے مسلح ونگز رکھنا ضروری ہو گیا تاکہ انہیں ووٹ جیتنے، گورنمنٹ کو ڈکٹیٹ کرانے، سیاسی اداروں کے راستے میں خلل ڈالنے یا پالیسیوں کا رخ موڑنے میں طاقت کے ٹول کے طور پر استعمال کر سکیں، اسی تنوّع میں آج بلوچستان میں سرگرم مسلح گروپوں نے بھی اپنا سیاسی ونگ متحرک کر لیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سنہ 2021 میں کابل سے نیٹو فورسیسز کی پسپائی کے ساتھ ہی بلوچستان میں ابھرنے والے تشدد کا تیسرا دور، جمہوری عمل میں ہتھیاروں اور مسلح دھڑوں کی تلویث کے باعث سرعت کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں کو نئی حرکیات میں ڈھالنے لگا ،ایک طرف بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی دم توڑتی مسلح مہمات میں نئی جان پڑی تو دوسری جانب ماہرنگ بلوچ اور سمی دین جیسی فعال خواتین کی قیادت میں گم شدہ افراد کے ایشو کو لیکر ایسی پُر اثر سیاسی تحریک اٹھائی گئی جو اپنی ہیت کے اعتبار سے بلوچ لبریشن فرنٹ کی پرتشدد کاروائیوں کو نقاب ابہام فراہم کرکے خطہ میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کی راہ ہمواربنانے کا وسیلہ بن سکتی ہے۔
ہر چند کہ امریکی جارحیت سے چند ماہ قبل سنہ 2000 میں افغانستان میں ہی بی ایل اے کی بنیاد رکھی گئی لیکن برطانوی استعمار نے بلوچوں کے دل دماغ میں آزادی و انحراف کی فصل 1947 میں اعلان آزادی کے ساتھ ہی کاشت کر دی تھی، جس کی گونج ہمیں 1973 سے1977 تک سوویت یونین کی خفیہ معاونت سے ابھرنے والی بلوچ طلبہ تنظیموں کے جوش خروش میں سنائی دیتی تھی تاہم موجودہ شورش 2000 کے اوائل میں بلوچستان کو آزاد کرانے کی خاطر اٹھائی گئی، 2010 سے 2015 تک، اِسی شورش سے منسلک منظم سیاسی تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا، جو آخری سال میں 96 واقعات اور 383 ہلاکتوں کے ساتھ عروج پر پہنچ چکی تھی، تاہم 2015 کے بعد وفاقی حکومت کی نئی حکمت عملی کے نتیجہ میں بلوچ عسکریت پسندوں کے منظم سیاسی تشدد کی شدت میں کمی آئی، اس لئے 2017 سے 2019 تک کل 38 واقعات میں 110 اموات رپوٹ ہوئیں۔
تشدد کے واقعات میں کمی کی 2 وجوہات تھیں جن میں پہلی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے انسداد بغاوت کی کارروائیوں کو تیز کرنا، دوسرے بلوچ عسکریت پسندوں کو پُرامن زندگی گزارنے کی محفوظ راہ اور پُرکشش ترغیبات تھیں، یہ وہی ایام تھے جب عسکریت پسند یا تو راہِ فرار اختیار کر رہے تھے یا حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت بھاری انعامات کے عوض ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوتے دیکھائی دیتے تھے، ریکارڈ کے مطابق اگست 2016 تک 1,025 بلوچ عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالکر ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ۔
یہ بھی پڑھیں: سولر سسٹم کا جن اور حکومتی ہتھکنڈے
انسداد شورش کی کارروائیوں اور حکومتی معافی کی سکیموں سے فائدہ اٹھانے کے پُرکشش ترغیبات کے علاوہ اُن دنوں بلوچ عیلحدگی پسندوں کے درمیان اختلاف اور قیادت کا فقدان بھی شورش کے زوال کا سبب بنا, پچھلے چند سالوں کے دوران بلوچستان کی شورش نسبتاً غیر فعال ہو چکی تھی کیونکہ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں میں اندرونی تقسیم اور نشنل ایکشن پلان کے کامیاب نفاذ نے مرکز گریز تنظیموں کی آپریشنل صلاحیت کو کمزور کر دیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پہ بلوچ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں حالیہ اضافہ اور سیکورٹی فورسز کے خلاف کامیابیوں کی نئی لہر کی ابتداءاگست 2021 میں کابل سے امریکی فورسیسز کے انخلاءکے بعد ابھرتی نظر آئی، گزشتہ دو سالوں کے دوران بلوچ دہشتگرد گروپوں کی تنظیم نو اور توسیعی صلاحیتوں میں پُراسرار اضافہ دیکھنے کو ملا.
بظاہر یہی بات قرین قیاس نظر آتی ہے کی مغربی طاقتیں قبائلی تعصب میں پھنسے ناراض بلوچوں کو سی پیک منصوبہ کے خلاف بروکار لانے کی خاطر بلوچ عوام میں وفاقی حکومت اور فوجی دستوں کے استحصال کے احساس کو پروان چڑھا کر شورش میں نئے بھرتی ہونے والوں کو متوجہ کرنے میں مدد کر رہی ہیں، جس سے شکست خوردہ منحرف گروہوں کو دوبارہ سر اٹھانے میں مدد ملی, اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچ عوام علیحدگی پسند گروپ کی مسلح شورش کو اپنی آنے والی نسلوں اور بلوچستان کے اجتماعی مفاد کے تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 2004 میں جب وفاقی حکومت پنجاب اور سندھ کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کے لئے مفت تعلیم اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں مشغول تھی عین اسی وقت بی ایل اے نے بلوچستان میں موجود غیر بلوچ اساتذہ اور دیگر ماہرین کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے ساتھ علیحدگی کی تحریک شروع کر دی، چنانچہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پہ متواتر حملوں کے بعد پاکستان نے 7 اپریل 2006 کو بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیکر پابندی عائد کر دی۔
بعد ازاں 17 جولائی 2006 کو برطانوی حکومت نے بھی دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت بی ایل او کو ”ممنوعہ گروپ“ قرار دیکر علامتی پابندی عائد کرنے کے ساتھ بی ایل اے کے بانی لیڈر ہیربیارمری کو سیاسی پناہ دیکر پاکستانی ریاست کے تحفظات کو ردّ کر دیا، 15 اپریل 2009 میں یوروپ میں بیٹھے براہمداغ بگٹی کی طرف سے بلوچستان میں مقیم تمام غیر بلوچوں کو قتل کرنے کی اپیل کے ساتھ ہی بلوچستان میں رہنے والے پنجابی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ مسافر بسوں اور ٹرینوں پہ حملے شروع ہو گئے جس میں نہتے شہریوں کی کم و بیش 500 ہلاکتیں ہوئیں، اس دن سے لیکر آج تک بی ایل اے نے بلوچستان میں بسنے والے پشتون، سندھی، اور پنجابی کو چُن چُن کے موت کے گھاٹ اتارنے کی جاری مہمات میں صوبہ بھر میں سکولوں، اساتذہ اور طلبہ پر لاتعداد حملے کئے۔