(24 نیوز) بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ ہفتہ جنگ بندی کے ضوابط پر رضامندی کے اعلان کے بعد دونوں پڑوسی ملک نئی دہلی اور اسلام آباد میں اپنے متعلقہ ہائی کمشنر کو مشن میں بحال کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق فروری 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت اور پاکستان نے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلا لیا تھا، جب سے دونوں ممالک کے ہائی کمشنرز نہیں ہیں۔اس سے پہلے سال 2002 میں دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلایا تھا۔ آخر کار اس وقت جنرل مشرف اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان 2003 میں جنگ بندی پرمعاہدہ ہوا۔ اس کے بعد سال 2004 میں سارک ممالک کے اجلاس کے لئے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان بھی گئے تھے۔کچھ ایسا ہی اس بار بھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ذرائع نے کہا ہے کہ اس سال کے آخر میں سارک کانفرنس کے لئے وزیر اعظم مودی کے اسلام آباد کے سفر کرنے کا امکان دور دور تک نہیں ہے، جبکہ ہمیشہ سیاست ہی نہیں بلکہ کئی بار ڈپلومیسی بھی کام آتی ہے۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ گزشتہ تین ماہ میں این ایس اے اجیت ڈوبھال اور پاکستانی سول اور آرمی قیادت کے درمیان پردے کے پیچھے بات چیت ہوئی تھی۔ دونوں ممالک کی میٹنگوں میں کسی تیسرے ملک کی بھی میٹنگ میں ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ کسی بھی فریق نے اس دعوے سے انکار نہیں کیا۔بھارت کے لئے جنگ بندی پر رضامندی کا اعلان بہت اچھی خبر تھی۔ ایل اے سی پر چین اور بھارت کے درمیان حالات سازگار ہونے کے ٹھیک بعد جنگ بندی معاہدہ کا اعلان کیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے معاہدے کے ٹھیک بعد وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ایک گھنٹے سے زیادہ کی ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ وہ ہندوستان اور چین کے وزارت داخلہ کے درمیان ایک ہاٹ لائن قیام کرنے کے لئے بھی رضا مند ہوئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان نرمی لانے میں کسی بھی امریکی دباو کی زبردست تردید کی ہے، حالانکہ یہ واضح ہے کہ دونوں فریق وہائٹ ہاوس میں نئی انتظامیہ کے ساتھ غلط قدم نہیں اٹھانا چاہتے ہیں۔