(24 نیوز )چھوٹی بحر کے بڑے شاعر، صحافی اور مصنف ناصر کاظمی کو ہم سے بچھڑے 52 برس بیت گئے، دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے ان کی برسی منا رہے ہیں ۔
ناصر رضا کاظمی 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے، تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی، اعلیٰ تعلیم کی تکمیل تو نہ ہو سکی لیکن شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہی ہو گیا،پہلے شعری مجموعہ ’برگ‘ نے شائع ہوتے ہی انہیں اردو غزل کے صف اول کے شعرا میں لاکھڑا کیا، ناصر کے اظہار میں شدت اور کرختگی ہی نہیں بلکہ احساس کی ایک دھیمی جھلک دکھائی دی جو روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔
ان کا شمار جدید غزل کے اولین معماروں میں ہوتا ہے اور ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان پوسٹ نے 2013 ء کو خصوصی ٹکٹ جاری کیا،ناصر کاظمی نے زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں اور رات کی کہانیاں سناتی ویران سڑکوں پر گزارا، ان کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں تجربات کا نچوڑ ہیں۔
انہوں نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ”دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا “ منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ”نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں “ گا کر پہچان ملی،ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 کو لاہور میں انتقال کر گئے لیکن ان کی شاعری آج بھی دلوں کو تازگی عطا کرتی ہے۔
ناصر کاظمی درحقیقت جدید غزل کے بانی اور غزل کے ان معماروں میں سے ہیں جنہوں نے غزل کو ندرتِ خیال ، تازگی، توانائی روانی، نرمی اور سادگی عطا کی، ناصر کاظمی کی شاعری میں کرب، درد، یاد کی پرچھائیاں کچھ کھونے کا غم اور برجستگی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ آج تک کوئی ان لطافتوں، گہرائیوں اور برجستگی کو نہیں چھو سکا ہے۔ ’’گر نے‘‘ ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جس نے اپنے منفرد انداز اور خاص کیفیات سے احساسات کا برملا اظہار کیا ہے۔
آو چپ کی زبان میں ناصر
اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں
ناصر کاظمی کی شاعری میں ہندوستان کی تقسیم کا درد بھی موجود ہے۔ زمانے کے منفی رویوں کا المیہ بھی موجود ہے اور عشق کی روداد بھی ہے جو ہجر فراق اور وصال کا ایک مختلف انداز میں سے احاطہ کرتی ہے۔
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں
تو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے
غزل نے جب محبوب کی خصوصیات کا احاطہ کیا تو محبوب کی مداح سرائی میں شاعروں نے نئے استعارے اور نئی تراکیب استعمال کیں۔ ناصر کاظمی کا عشق پنچایتی نہیں ہے۔ نہ ہی ان استعاروں سے مزین جو کہ اردو فارسی شاعری میں موجود ہے جس میں خیالی حُسن غزل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ناصر کاظمی کے ہاں محبوب کی تصویر ایک عام اور سیدھی سادی لڑکی ہے جو عام سے معاشرے کا عام سا حصہ ہے۔ جس کا عشق بھی عام ہے۔ پہلی بارش جو کہ ان کی شاعری کا تیسرا مجموعہ اسی عام انداز کے محبوب کی روداد ہے۔ ناصر کاظمی اس فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں کہ وہ زندگی کی بڑی سے بڑی حقیقت کو بڑی آسانی سے موضوع سخن بنا کر اُسے عالمگیر حقیقت عطا کی ہے کہ وہ شعر آفاقیت کے بلند ترین مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھرنہ جائے کہیں
ناصر کاظمی نے اُداسی اورتنہائی کو جہاں نئے مفاہیم اور پیرائے عطا کئے ہیں وہاں ہجر اور فراق کے قِصوں کو سادہ طریقے سے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔
ہماری گھر کی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
یوں کس طرح کٹے کا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
ڈاکٹر سہیل احمد نے ناصر کاظمی کی شاعری کے بارے میں لکھا کہ وہ ذات کے سفر میں اپنے ہمراہ وہ روشنی کو لے کر چلتے ہیں کہ جو اداسیوں اور ویرانیوں میں اُمید اور حوصلہ کو برقرار رکھتی ہے،لکھتے ہیں:۔
کچھ یاد گار شہر ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:۔
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
ناصر کاظمی نے نثر نگاری پر بھی کام کیا، لیکن ان کی پہچان غزل کے حوالے سے منفرد ہے اور ان کی غزلوں کی سادگی ، معنویت ندرتِ خیال نے نہ صرف غزل کوایک معیار دیا ہے، دوسری طرف اُن کی شاعری نے غزل کے جدید معماروں میں انہیں صفِ اول پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ انفرادیت بہت کم شعراء کے حصے میں آتی ہے۔
ان کی سب سے مشہور غزل جسے میڈم ترنم نور جہاں نے گایا :.
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمان وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا