تشدد کی نئی لہر کا محرک کون ہے ؟
اسلم اعوان

Stay tuned with 24 News HD Android App

پچھلے 45 سال سے دو بڑی افغان جنگووں کے دوران جہادی کارکنوں کے سرچشمہ کی حیثیت رکھنے والے دارالعلوم حقانیہ نوشہرہ میں خودکش دھماکہ میں ممتاز عالم دین مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد کی شہادت بڑی پالسی شفٹ کا شاخسانہ دیکھائی دیتی ہے ۔ چار دہائیوں پہ محیط عالمی طاقتوں کی " گریٹ گیم وار فیئر " کے دروان مدرسہ حقانیہ ہمارے نشنل سیکورٹی بیانیہ کا نقاب ابہام ہونے کی وجہ سے خاصی اہمیت کا حامل رہا چنانچہ جامعہ حقانیہ تک خود کش حملہ آور کی رسائی بڑے سکیورٹی شگاف کی غماضی کر گئی کیونکہ ابھی چند دن قبل اِسی مدرسہ میں دستار بندی تقریب کی سیکیورٹی کے لئے بڑے پیمانے پہ فوج کی تعیناتی دارالعلوم کی تزویری اہمیت کا پتہ دیتی تھی ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد افغان جہادی تنظیموں کے مابین کابل میں بھڑک اٹھنے والی مہیب خانہ جنگی پہ قابو پانے کی خاطر 1994میں ہماری ریاستی مقتدرہ نے جب طالبان کی تشکیل کا بیڑا اٹھایا ، تو تب ، وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے بیس کیمپ کے طور پر اِسی مدرسہ کا انتخاب کیا ، جو جنرل ضیاء الحق کے نظریات کی نمائندگی کرتا تھا ، مدرسہ ہذا کی اسٹریٹیجک حیثت کے اعتراف کے طور پر اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ذریعے جامعہ حقانیہ کے مہتمم مولانا سمیع الحق کو 30 کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ دلائی گئی ،اسی روایت کے تسلسل میں خیبرپختون خوا کی تقریباً ہر حکومت مدرسہ حقانیہ کی کھلی یا چھپی مالی معاونت اپنا فرض سمجھتی تھی، سابق وزیراعلی پرویز خٹک نے بھی دارالعلوم حقانیہ کو دس کروڑ کی گرانٹ فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی ۔
قصہ کوتاہ اِس مدرسہ کو افغان جنگووں کے دوران ریاستی مقتدرہ کے غیرسرکاری بیس کیمپ کی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے سمیع الحق کا گھرانہ اس وار گیم کا سب سے بڑا بینافشری بنا رہا ، شاید اسی لئے افغانستان میں امریکہ قبضہ کے خلاف مزاحمتی جہاد کے دوران مغربی میڈیا جامعہ حقانیہ کو طالبان جنگجو بنانے کی فیکٹری لکھا کرتا تھا ، شیخ الجامعہ مولانا سمیع الحق مرحوم مغربی میڈیا میں شائع ہونے والے ایسے تمام مضامین کے اردو تراجم اپنے ذاتی رسالے ''العصر'' میں دوبارہ شائع کرانے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ علی ہذالقیاس ، اگرچہ تاحال کسی گروپ نے حقانیہ حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن تجزیہ کاروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اِس کاروائی کے پیچھے داعش خراسان سے وابستہ تنظیم آئی ایس خیبر پختون خوا ہو سکتی ہے لیکن افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ داعش خراسان ، جلسوں اور عوامی جگہوں کو تو ہدف بنا سکتی،جیسا کہ گزشتہ سال مالاکنڈ میں جے یو آئی کے اجتماع کو ٹارگٹ کیا گیا مگر داعش خراسان میں اب اتنی سکت باقی نہیں بچی کہ وہ جامعہ حقانیہ جیسی انتہائی محفوظ جگہ کو ہدف بنا سکے، ان کے خیال میں یہ اُسی طرح کا خودکش حملہ ہے جیسا دو ماہ پہلے کابل میں خلیل الرحمن حقانی پہ کیا گیا، جس کی ذمہ داری آج تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ۔ جامعہ حقانیہ پہ حملہ کی ذمہ داری بھی داعش سمیت کسی دہشتگرد گروپ نے نہیں لی البتہ دارالعلوم حملہ کے ایک گھنٹے بعد ٹی ٹی پی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں حملہ کا الزام اپنی مخالف تنظیم جماعت الاحرار پہ عائد کرنا شکوک و شبہات کے کئی دریچے کھول گیا ۔
واضح رہے کہ جماعت الاحرار نے پچھلے سال اپنے امیر عمرخالد خراسانی کے قتل کا دعوی ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود پہ کیا تھا ، چنانچہ بادی النظری میں جامعہ حقانیہ پہ حملہ افغان طالبان کے حقانی اور قندھاری دھڑوں کے درمیان جاری کشمکش کا حصہ نظر آتا ہے، ماہرین کا خیال ہے ، پاکستان کے حامی کمانڈر سراج الدین حقانی اور پاکستان مخالف مُلا یعقوب قندھاری کے درمیان پالیسی امور پہ جاری کشمکش میں حقانی نیٹ ورک کو مولانا حامدالحق اور علامہ تقی عثمانی سمیت پاکستان کے جید علماء کرام کی اخلاقی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے ممکنہ طور پہ قندھاری گروپ کی اتحادی ٹی ٹی پی نے امریکی یا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے دارالعلوم حقانیہ کو ہدف بنانے میں کامیابی پائی ہو گی ، چنانچہ اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرنے والے دیگر بڑے مدارس خاصکر جامعہ بنوری ٹاون اور علامہ تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی کو بھی ہدف بنایا جا سکتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان کے نقطہ نظر میں پاکستان کی قومی سلامتی بارے عمیق منفی تغیرات کی بدولت پاکستان کی افغان پالیسی میں جوہری تبدیلیان رونما ہو چکی ہیں جس کے اثرات افغانستان کے طالبان گروپوں کے مابین گہرے ہوتے اختلافات اور پاکستان کے طول و ارض میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ چنانچہ مدرسہ کی تاریخ اور افغان جنگوں میں اُس کی فرنٹ لائن پوزیش کے پیش نظر، اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ حملہ دشمن طاقتوں کی مدد سے ٹی ٹی پی جیسے فعال گروپوں سے ایک ایسے وقت میں کروایا گیا جب مولانا حامد الحق بوجوہ ہماری مقتدرہ کو ہدف تنقید بنا رہے تھے تاکہ مولانا حامد کے قریبی حلقوں کا پہلا شبہ ہماری ریاستی مقتدرہ کی طرف مڑ جائے بلاشبہ یہ انتہائی سمارٹ چال تھی ۔
دیوبند مکتب فکر کے نمائندہ دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد مولانا عبدالحق نے 1947میں رکھی بعدازاں ان کے بیٹے اور حامد الحق کے والد سمیع الحق اس عظیم مدرسہ کے شیخ الجامعہ رہے، جنہیں ''فادر آف طالبان'' بھی کہا جاتا تھا ،مولاناسمیع الحق کو 2018 میں راولپنڈی میں چاقو کے وار کرکے قتل کردیا گیا ، مولانا حامد الحق مرحوم والد کی وفات کے بعد مدرسے کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ گزشتہ سال ''افغان سفارت کاری'' کے لئے مذہبی اسکالرز کے طور پر وہ ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے افغانستان گئے ، جہاں انہوں نے افغان طالبان کے سینئر رہنماوں سے ملاقاتیں کی تھی ۔ مدرسہ حقانیہ میں افغان جہاد سے منسلک ہزاروں طلبہ زیرِ تعلیم رہے ، جن میں امیر المومنین مُلا عمر کے علاوہ افغانستان کے وزیرداخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی جیسے سرکردہ طالبان رہنما شامل ہیں ۔ کم و بیش نصف صدی پہ محیط دو بڑی افغان جنگوں کے مضرات کے طور پہ مغربی سرحدات سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں میں مساجد پر متعدد حملوں کا مشاہدہ کیا گیا ۔ جنوری 2023 میں پشاور کے پولیس کمپلیکس کے اندر مسجد کو نشانہ بنایا گیا جس میں 100 سے زائد نمازی ہلاک ہوئے،جن میں زیادہ تر پولیس افسران تھے ، پچھلے سال ایسے حملوں کے نتیجہ میں ملک میں بھر1500سے زیادہ اموات ہوئیں ۔ اگرچہ سرکاری طور پر کسی گروپ نے پشاور مسجد حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پچھلے کچھ سالوں میں ملک میں بڑھتے ہوئے حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی، جو نظریاتی اور عملی طور پر افغان طالبان کے ساتھ منسلک ہے چنانچہ اسی تناطر میں دفاعی امور کے ماہرین مدرسہ حقانیہ پر حملے اور حامد الحق کے قتل کو غیرمعمولی پیش دستی تصور کرتے ہیں ، جس کا ردعمل کابل و قندھارکے در و بام تک پہنچ سکتا ہے ۔