اثرچوہان دبنگ صحافی،شاعر ،کئی زبانوں پر عبور رکھنے والی شخصیت

از۔۔۔بیدار سرمدی

Mar 02, 2025 | 17:57:PM
اثرچوہان دبنگ صحافی،شاعر ،کئی زبانوں پر عبور رکھنے والی شخصیت
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ابھی کل کی بات لگتی ہے،9 جولائی 1973ء کی ایک گرم دوپہر تھی جب میں پنجاب کی اور خاص طور پر سرگودھا کی ممتاز علمی ادبی اور تدریسی شخصیت پروفیسر غلام جیلانی اصغر، اس وقت وائس پرنسپل گورنمنٹ کالج سرگودھا کے ایک تعارفی خط کے ساتھ لاہور کی کوپر روڈ پر موجود فضل بلڈنگ میں خوبصورت گھونگریالے بالوں بھرے چہرے اور چمکدار آنکھوں والے برادرم اثر چو ہان کے پاس حاضر ہوا،ایک بڑے کشادہ کمرے میں پرجوش چہروں کے ساتھ ان کے شراکت دار محبی عاشق جعفری اور کچھ دوسرے احباب بھی ان کے پاس موجود تھے،اثر چوہان نے لفافہ کھولا ، مجھے آنکھ بھر کر دیکھا اور ایک نوجوان کو آواز دی، بیدار صاحب کیلئے چائے لائے، جناب اثر چوہان کے ساتھ یہ میرا پہلا تعارف تھا جس میں آدھ گھنٹے کی گفتگو کے دوران میری سرگودھا میں لیبر سرگرمیوں اور ایم اے کے بعدکی مصروفیات سن کر ہی انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ میں روزنامہ سیاست سرگودھا کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام شروع کروں گا،مجھے اس وقت ایل ایل بی پارٹ 2 کا صرف امتحان دینا تھا، پھر یہ رفاقت اور ان سے روزانہ صحافت کے اسرار ورموز سیکھنے کا عمل اس وقت تک جاری رہا جب تک میں نے 1976ء میں روزنامہ نوائے وقت لاہور جائن نہیں کر لیا۔

ان دنوں روزنامہ سیاست ایک طرف دبنگ صحافت کی علامت بنا ہوا تھا تو اس کے ساتھ ہی عملی صحافت کی ایک بہترین تربیت گاہ بھی،کہنہ مشق اور نو آموز ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے تھے،یزدانی جالندھری اور بابا آصف کے ساتھ ہی سلیم بخاری، سحر صدیقی، افتخار مجاز، رحمت علی رازی ،حسین ثاقب،رفیق عالم اور بہت سے دوسرے صحافی کام کر رہے تھے جنہوں نے بعد میں اپنے اپنے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے، سرگودھا اور ملتان میں روزنامہ سیاست کی ریذیڈنٹ ایڈیٹری کی بعد میں نے سیاست لاہور میں بھی کچھ عرصہ کام کیا، موجودہ نہیں بلکہ بھٹو والی پیپلز پارٹی کا زمانہ تھا،امیدوں اور نا امیدیوں سے مالا مال اس زمانے میں اثر چوہان اور عاشق جعفری کی راہنمائی میں سیاست نے خوب رنگ جمایا،اس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں، ہاں محبی اثر چوہان کے حوالے سے بہت کچھ یاد آتا ہے۔انتہائی کم وسائل کے ساتھ جس طرح انہوں نے اخبار نکالا اور اپنے زمانے کے طاقتور حلقوں کو للکارا یہ ایک حسینی راجپوت ہی کر سکتا تھا،فضل بلڈنگ میں میں نے کیسے کیسے بڑے قد کے لوگ دیکھے،مجھے وہ شب و روز کبھی نہیں بھولتے جب آخر شب فضل بلڈنگ میں کاپی پریس میں جانے کے بعد حبیب جالب اور بعض دوسرے انقلابیوں کی محفل شروع ہوتی اور درد اور خلوص کیساتھ جالب پوری موج میں آ کر اپنا کلام سناتے اور کبھی مجھے بھی کچھ سنانے کیلئے اکساتے، ایسا محسوس ہوتا کہ کسی جادو گر نے زندگی کو جامد کر دیا ہو، اس ماحول کا بھی کچھ اثر تھا کہ غلام مصطفی کھر، حنیف رامے ٹکرائو میں اثر چوہان ایک جاگیر دار سیاستدان کی بجائے ایک مڈل کلاس انقلابی کے ساتھ کھڑے نظر آئے،تمام تر دبائو کے باوجود ان کی اہلیہ نجمہ اثر چوہان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں ایک بڑے گھرانے کی امیدوار کے مقابلے میں پنجاب اسمبلی کی رکن اور پیپلز پارٹی شعبہ خواتین پنجاب کی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئیں،کوثر نیازی میں جب ایک انقلابی سوچ والے دینی راہنما کی بجائے ایک ملا کی صورت ابھرنے لگی تو اثر چوہان نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا، اپنی جارحانہ صحافت کے انداز اور اس کے نتیجے میں مالی حالات کے دباؤ میں انہیں ایک سے زیادہ بار اخبار کو لپیٹنا پڑا لیکن جونہی وسائل ساتھ دیتے وہ اپنی راکھ سے شعلہ بن کر ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوتے، اثر چوہان کے اندر ایک خوبصورت شاعر بھی چھپا ہوا تھا، وہ ہندی سمیت کئی زبانیں جانتے اور ان کا استعمال کرتے تھے،ریڈیو ٹی وی پر کشمیر کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے ان کے ہندی کے پروگرام تاریخ کا حصہ ہیں، پنجابی زبان سے بھی انہیں عشق تھا اور چانن جیسا جریدہ ان کے شوق کی تکمیل کا آئینہ دار تھا،وہ بہت محبت کرنے والے انسان تھے، کئی حوالوں سے ان کی محبت کا زمزمہ بہتا رہا، اپنے گھر سے محبت ان کی ان نظموں سے ظاہر ہے جو انہوں نے اپنی والدہ، والد اور اپنی دونوں بیگمات کی رحلت پر لکھیں۔۔۔ اختر بانو سے۔ کے عنوان سے نظم کا ایک شعر۔
گھر کے ہر فرد کی آنکھوں میں ہے نم تیرے بعد
 لوگ کہتے ہیں ہمیں اہل الم تیرے بعد
 اپنی بڑی بیٹی سائرہ اثر کی رخصتی پر ان کی نظم۔۔ چڑا وچارا کلم کلا۔۔ غم اور خوشی کا دلربا اظہار ہے۔ اپنے سارے بھائیوں مبارک علی ، لیاقت چوہان ،شوکت علی ، سلیم چوہان ، محمد کلیم کا ہر لمحہ خیال رکھا، لیاقت چوہان اور سلیم چوہان نے ان کی روایات کو اب بھی سنبھالا ہوا ہے، اپنے سارے بچوں ذالفقار علی، افتخار علی  ، انتظار علی اور شہباز علی کے ساتھ چاروں بیٹیوں کو اپنی زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھا، یہ ان کی اپنے خاندان سے محبت تھی،اپنے وطن سے محبت ان کی زندگی بھر کی جدوجہد سے ظاہر ہے۔

 مرحوم مجید نظامی کے ساتھ ان کی خصوصی انسیت تھی جنہوں نے انہیں شاعرِ نظریہ پاکستان کا لقب دیا تھا، اپنے ساتھیوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ تا بہ مقدور ان کے لئے بہتر سوچا، ان سے رابطہ رکھا،میں نوائے وقت میں برسوں میگزین ایڈیٹر ڈپٹی ایڈیٹر رہا، ان کے سلیم بخاری، رحمت علی رازی اور افتحار مجاز جیسے جونیئر ساتھی بعد میں مجھ سے بھی بڑے مناصب تک پہنچے لیکن جناب اثر چوہان کے ساتھ سب کی نیاز مندی کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا، محبت کا سب سے اجلا پہلو ان کی اپنے محبوب پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ و الہ وسلم اور ان کے خانوادے سے محبت تھی۔
اے امام الانبیا محبوب رب العالمین
 آج تک چشم فلک نے آپ سا دیکھا نہیں
اسی طرح ان کی پنجابی کی ایک نظم۔
’’جے میں کربلا دے وچ ہوندا‘‘ خانوادہ رسول سے ان کی محبت کا بھرپور اظہاریہ ہے، اسی پس منظر میں آغا موسوی نے ان کو حسینی راجپوت کا خطاب دیا جسے وہ اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے، پنجتن پاک کے لئے ان کا قلم ہمیشہ متحرک رہا،ممتاز صحافی اور جرات تجارت گروپ کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی نے اپنی تازہ اور لائق مطالعہ تصنیف دیار مجدد سے داتا نگر تک میں محبی اثر چوہان کے دو یادگار کالم شائع کئے ہیں ایک کا عنوان ہے مولانا بھاشانی سے دو جپھیاں،اس کالم کا تعلق 1970ء کے اس صحافتی ایڈونچر سے ہے جو مصطفی صادق اور جمیل اطہر کے روزنامہ وفاق سے وابستگی کے دوران ان کی طرف سے دی گئی ایک اسائنمنٹ کے طور پر محبی اثر چوہان نے سابقہ مشرقی پاکستان جا کر کیا ،اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ گزشتہ صدی میں اس نابغہ روزگار شخص کی صحافتی جدو جہد کس نوعیت کی تھی، ایک مدت تک نوائے وقت میں ان کے کالم ان کی تبحر علمی اورملکی اور عالمی حالات پر گرفت کے ساتھ قارئین کی علمی پیاس بجھاتے رہے، آخری وقت تک قلم ہی ان کا سرہانہ بنا رہا اور پھر 86برس کی بھر پور زندگی گزارنے کے بعد گزشتہ اتوارکو جان جان آفریں کے سپرد کر دی،ان کے جنازے کو کندھا دینے کیلئے ان کے بہت سے بڑے قد کے احباب موجود تھے، انہوں نے زندگی بھر لکھا اور بھرپور علمی سرمائے کی بنیاد پر لکھا،اب یہ ان کے ورثا کا کام ہے کہ ان کے مسودوں کو کتابی صورت دے کر ان کے پیغام کو پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھیں۔

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت