عمران خان نااہلی کیس :چیف جسٹس اور وکلا میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
اسلام آباد(احتشام کیانی) سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے وقت مانگا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی جس میں صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے نوٹس نہیں کیے تھے، صرف جواب مانگے تھے، جوابات کا جائزہ بعد میں لیں گے، پہلے حکومتی وکیل کا موقف سن لیتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے وقت مانگا ہے، انہوں نے کسی بھی یقین دہانی سے لاعلمی ظاہرکی ہے، عمران خان نے جواب میں عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہارکیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، فیصد چوہدری کے مطابق ہدایت اسد عمر سے لی تھیں،فیصل چوہدری کے مطابق ان کا عمران خان سے رابطہ نہیں ہوسکا تھا، بابراعوان کے مطابق عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا۔،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 25 مئی کو پہلے اور دوسرے عدالتی احکامات میں کتنی دیر کا فرق ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلا حکم دن گیارہ بجے دیا گیا دوسرا شام 6 بجے،جس پر چیف جسٹس نے کہا دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کیلئے ہی تھا اور عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا،دونوں وکلاء نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملیں اورعمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا؟یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی جانب سے کرائی گی تھی اور پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی، سپریم کورٹ میں عمران خان پر عدالت کو شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلایا تھا اور دو مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔
عامر رحمان کا کہنا تھا کہہ بلیو ایریا میں عمران خان نے تقریر صبح 7:30 پر کی جس پر چیف جسٹس نے کہا جن واقعات کا ذکر آپ نے کیا وہ عمران خان کے آنے سے پہلے کے ہیں۔اور اگر اسد عمر سے رابطہ ہوا تو عمران خان سے بھی ہوسکتا تھا ،اسد عمر بھی فوٹیجز کے مطابق عمران خان کے ساتھ موجود تھے،26 مئی کے عدالتی حکم کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔چیف جسٹس نے کہا فیصل چوہدری صاحب پریشان نہ ہوں آپ کو کوئی نوٹس نہیں ہے ، وکیل فیصل چوہدری نے کہا توہین عدالت کے نوٹس سے زیادہ اپنے کیرئیر کی فکر ہے،25 مئی کی سماعت چار حصوں پر مشتمل تھی،پہلے حصے میں ضلعی انتظامیہ کو بلایا گیا تھا،بارہ بجے مجھے عدالت میں بلاکر رابطہ کی ہدایت کی گئی اور جب بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔
احسن بھون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کروانے کے لیے سہولت دینے کا حکم بلاوجہ نہیں تھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب میں کہا کہ جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گراؤنڈ کا کہا تھاتحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے احکامات کا غلط استعمال کیا ،سیاسی لیڈروں کو رول ماڈل ہونا چاہیے سپریم کورٹ بنیادی انسانی حقوق کی ضامن ہے ،ہم اپنے قلم کا غیر آئینی طریقے سے استعمال نہیں چاہتے ۔
،چیف جسٹس نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ دیکھیں کیا لکھا ہے ۔سپریم کورٹ نے عمران خان سے 5 نومبر تک تفصیلی جواب طلب کرلیا اورکیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔