(24نیوز)آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل سید مصطفین کاظمی اور چیف جسٹس نے درمیان تلخ کلامی ہوئی، وکیل نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا باہر 500 وکلا کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ آتا ہے جس پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، جسٹس امین الدین ،جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلہ سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا،صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔
شہزاد شوکت نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظر ثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے,جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی دو سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا میں پہلے ایک بیان دے دوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گذارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں,علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی، علی ظفر نے جواب دیا کہ میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ کے آفس نے منظور نہیں کی، مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، عمران خان سابق وزیراعظم ہیں اور درخواست گزار بھی ہیں، انہیں آئین کی سمجھ بوجھ ہے اور انہیں معلوم ہے کہا کہنا ہے کیا نہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ بانی پی ٹی آئی سے معاملے پر مشاورت کرلوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، علی ظفر نے کہا یعنی آپ میری عمران خان سے ملاقات کی درخواست کو مسترد کر رہے ہیں۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کرسکتے تھے، علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کروائی تھی۔
علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ مجھے یقین تھا آپ عمران خان سے ملاقات کی درخواست کو منظور نہیں کریں گے,کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں,مصطفین کاظمی نے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بنچ غیر آئینی ہے، دو ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے، پی ٹی آئی وکیل نے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض کردیا۔
چیف جسٹس نے عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں,چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے,وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔
علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اسکا جواب بھی پڑھنا ہوگا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔
علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی,چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔
علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے، آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟،آج کی سماعت سے متعلق چیف جسٹس کے تحریر کردہ حکمنامے میں کہا گیا کہ نظر ثانی درخواست 3 دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا، درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود نہ ہونے پر نظر ثانی تاخیر سے دائر ہوئی۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ رجسڑار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا، جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھا، رجسڑار معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا، ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ دوران سماعت کچھ سوالات سامنے ائے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کریں،حکمنامے کے مطابق وکیل علی ظفر نے کہا کہ میرا موکل جیل میں ہے نوٹس ملے گا تو جا کر ہدایات لوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئینی معاملہ ہے، ہدایات کیا لیں گے، کیا وہ آپ سے کہیں گے آئین کو نہ مانو، کیا ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر نوٹس دیں۔
علی ظفر نے کہا کہ موجودہ صدر نے نظر ثانی دائر نہیں کر رکھی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سابق صدر مملکت اگر معاونت کرنا چاہیں تو ویلکم کیا جائے گا، علی ظفر نے کہا کہ میں تحریک انصاف نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے پیش ہو رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارے لیے سب کچھ ہیں۔