(ویب ڈیسک) بھارت کے علاقہ پنا نامی ایک ایسا قصبہ ہے جہاں آپ راتوں رات زندگی بدل سکتے ہیں، یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کہ رہائشی ہیروں کی کان کنی میں ہیروں کی تلاش کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سوامی دین پال کے گھر میں جشن کا ماحول تھا، پنا میں رہنے والا یہ خاندان حال ہی میں 32.8 قیراط کا ہیرا تلاش کرنے میں کامیاب ہوا تو یہ ان کی برسوں کی محنت کا نتیجہ تھا۔
انہیں امید ہے کہ اس ہیرے کی فروخت سے انھیں ڈیڑھ کروڑ انڈین روپے (تقریباً پانچ کروڑ پاکستانی روپے) حاصل ہو سکتے ہیں، دیوالی کے قریب اس ہیرے کی نیلامی کی جائے گی اور حاصل ہونے والی رقم میں سے ایک مخصوص حصہ حکومت رکھے گی جبکہ باقی رقم سوامی کے کھاتے میں جمع کروا دی جائے گی۔ لیکن اتنا قیمتی ہیرا ملنے کے بعد بھی پال خاندان آرام کرنے یا رکنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوامی دین پال کا کہنا تھا کہ "ہم نے ایک طویل عرصے تک مزدوروں کے طور پر کام کیا، اپنا چھوٹا سا گھر بنایا، پھر عمر کے اس حصے میں بیٹے کے ساتھ مل کر ہیروں کی تلاش کے لیے ایک کان لگائی، چار پانچ سال تک ہمیں کچھ نہیں ملا۔ اب ہماری خواہش پوری ہو گئی ہے, امید ہے کہ اب حالات بہتر ہو جائیں گے۔"
سوامی کے بیٹے جمنا پال نے بتایا کہ جس رات انھیں ہیرا ملا وہ سو نہیں سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا دل کیا کہ ’پوری رات ناچیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ "اب میں صرف کان میں کام کروں گا,مجھے ہیرا مل گیا تو میں مزدوری نہیں کروں گا, اگر میرے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوا تب بھی میں ہیرے کی کان میں ہی کام کروں گا۔"
سوامی دین اکیلے نہیں۔ ان جیسے ہزاروں اور بھی ہیں جو ہیروں کی تلاش میں ملک کے کونے کونے سے مدھیہ پردیش کے اس چھوٹے سے قصبے پنا میں اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔
یہاں آنے والے ہر فرد کے لیے ہیرے کی تلاش محض ایک خواب اور جنون نہیں بلکہ راتوں رات زندگی بدلنے کا ایک موقع ہے۔
نسلوں تک جاری رہنے والی ہیروں کی تلاش
انڈین بیورو آف مائنز کی 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود ہیروں کے 90 فیصد سے زیادہ ذخائر پنا میں ہیں۔ ان کی مقدار دو کروڑ 86 قیراط کے قریب ہے۔
مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے تقریباً 380 کلومیٹر دور واقع اس مقام کے لوگوں کی طرز زندگی، گفتگو اور توقعات غرض ہر چیز کا محور ہیرے ہیں۔
صبح ہوتے ہی یہاں ہزاروں لوگ ہیروں کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں۔
کئی خاندان ایسے بھی ہیں جو نسلوں سے ہیروں کی تلاش میں کوشاں ہیں۔ 67 سالہ پرکاش شرما بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں۔ ان کے قریبی لوگ انھیں کَکو کے نام سے پکارتے ہیں۔
پرکاش کے والد نے اپنی زندگی ہیروں کی تلاش میں گزار دی۔ وہ پنا میں ایک خیمے میں رہتے ہیں اور ہر صبح اپنے خواب یعنی ہیروں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔
ٹھیک 50 سال پہلے انھیں پہلی بار ایک ہیرا ملا تھا, پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ "میں نے اپنی تعلیم 1974 میں مکمل کی,ان دنوں کسی بھی محکمے میں اچھی نوکری مل سکتی تھی، لیکن میں نے کچھ اور ہی فیصلہ کر لیا تھا۔"
انہوں نے کہا کہ " انٹرمیڈیٹ پاس کرنے سے کچھ عرصہ قبل مجھے پہلا ہیرا ملا جو تقریباً چھ قیراط کا تھا اور پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں صرف ہیروں کی تلاش کا کام کروں گا۔"
پرکاش کا کہنا ہے کہ انھوں اپنے اس شوق کی وجہ سے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ وہ اپنے بھائیوں اور ان کے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔
انہیں ہیروں کی تلاش کی "لت" لگ چکی ہے, وہ بتاتے ہیں کہ " یہ میرے لیے ایک نشے کی طرح ہے, اگر میں ہیروں کی تلاش میں نہ نکلوں تو میں بیمار سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔"
"ہیرے نے زندگی بدل دی"
ملائم سنگھ پنا کے قریب واقع گاؤں راہونیا کے رہائشی ہیں, سنہ 2020 میں انھیں تقریباً 60 لاکھ انڈین روپے مالیت کا ہیرا ملا تھا اور ان کی قسمت بدل گئی. آج ملائم سنگھ کا ایک چھوٹا سا پکا گھر ہے اور وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور ان کی صحت کا بہتر خیال رکھنے کے قابل ہیں۔
انہوں نے بتا یا کہ "ہم بچپن سے ہیروں کی کانوں میں کام کرتے آئے ہیں، میرے والد بھی یہیں کام کرتے تھے, ایک لمبے عرصے کے بعد ہماری قسمت کھلی۔"
انہوں نے بتایا کہ "ان چار لوگوں نے مل کر ہیرے کی کان کنی کا کام شروع کیا تھا اور اب کی بار جب ہمیں ہیرے ملے تو ہم نے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ایک گھر بنایا، ایک فارم خریدا اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔"
کچھ لوگوں کے لیے ہیرے خواب ہی رہے
لیکن ہر کوئی سوامی دین پال یا ملائم سنگھ جیسا خوش نصیب نہیں ہوتا, اوڈیشہ (اڑیسہ) سے آئے سکھ دیو کئی سال سے تلاش میں ہیں لیکن وہ ہیروں کی چمک سے آج بھی محروم ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ پنا آ کر اپنی قسمت آزمائیں۔ میں نے اپنا سامان باندھا اور یہاں آگیا۔ لیکن آج تک میری قسمت نہیں کھلی۔‘
ان کی طرح امت شری واستو بھی برسوں سے ہیروں کی تلاش میں ہیں۔ وہ پنا کے سنگھ پور علاقے کے رہنے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہاں رنج ندی میں بہت سے ہیرے پائے جاتے ہیں۔ میں اس میں ہیرے تلاش کرتا ہوں۔ برسات کے موسم میں یہاں ہیرے ملتے ہیں, لیکن انھیں اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔"
رمیش کسواہا پیشے سے ایک سبزی فروش ہیں لیکن وہ بھی راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں ہیروں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔
وہ برسات کے موسم میں ہیرے تلاش کرتے ہیں اور باقی وقت سبزیاں بیچ کر اپنا گزارا کرتے ہیں۔
"سبزی بیچ کر کوئی بھی فوری طور پر امیر نہیں بن سکتا اس لیے میں بھی ہیرے تلاش کرتا ہوں, میرا ایک دوست ہیروں کا کام کرتا ہے, اگر میری قسمت میں ہوا تو مجھے بھی ایک ایک دن ہیرا ضرور ملے گا۔"