بیکری بوائے کی سپریم کورٹ میں انٹری ، چیف جسٹس کو دھمکی لگادی
عامررضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
بیکری ڈیلیوری بوائے یاد ہے نا جس نے ڈونٹ خریدتے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر تلخ فقرہ کسا تھا۔ جی ہاں وہی بیکری بوائے جس نے شہرت کے لیے اس گالی بکنے کی ویڈیو بھی بنائی اور اسے وائرل کرنے کی ذمہ داری پی ٹی آئی کے ذمے لگائی۔ ایسا ہی ایک اور کریکٹر وکیل کے روپ میں سپریم کورٹ آتا ہے اور پھرسپریم کورٹ میں وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قاضی فائز عیسیٰ کی نرم روئیے نے یہ دن دکھا دیا کہ ایک وکیل نے کھڑے ہوکر چیف جسٹس اور ساتھی چار ججز کو دھمکی لگائی۔ جی ہاں آئین کے آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس میں سماعت جاری تھی تو چیف جسٹس پر گالی اچھالنے والے بیکری بوائے جیسے کریکٹر والا پاکستان تحریک انصاف کا وکیل کارکن مصطفین کاظمی نے روسٹرم پر کھڑے ہوکر جو کہا وہ ذرائع کے مطابق کچھ یوں تھا " پانچ سو وکیل ہمارا باہر ہے دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں"
یہ ہے وہ رویہ جس نے اس ملک میں کسی کی عزت کو برقرار نہیں رکھا جب ایک بیکری کا ڈیلیوری بوائے چیف جسٹس پر گالی اچھال سکتا ہے تو مصطفین تو سپریم کورٹ کا وکیل ہے خود کو پی ٹی آئی کا وکیل کہنے والے مصطفین کون ہے؟ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں ، چیف جسٹس پاکستان اور ان کے ساتھی ججز نے جس تحمل کا مظاہرہ کیا۔ چیف جسٹس نے اس دھمکی کے باوجود کہا " علی ظفر صاحب کیسے یہ وکیل بات کر رہے ہیں ؟یہ وکیل ہمیں دھمکی دے رہے ہیں"
یہ سننا تھا کہ علی ظفر نے اپنے لیڈر کیطرح پینترا بدلا اور مصطفین کاظمی سے اعلان لاتعلقی کردیا ، اب ہم نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ مصطفین صاحب بھی بیکری والے کی طرح برے آدمی کے خلاف بول کر خود کا قد برا کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے دھمکی لگادی جس پر پی ٹی آئی کے ٹرولز لگاتار ان کو ٹیگ کر رہے ہیں اور مختلف گروپس مین اسے قانون کا " ارتغل غازی " کہا جا رہا ہے ، سپریم کورٹ اب بھی اس دھمکی کا نوٹس نہ لیا تو معاملہ اس سے آگے بھی جاسکتا ہے ۔
کچھ مواقع پر ایونٹس کی ٹائمنگ بہت اہم ہوا کرتی ہے کہ اس ایونٹ کا انعقاد کس موقعہ پر ہوا کچھ لوگوں کے لیے یہ وقت اچھا اور کچھ کے لیے برا ثابت ہوسکتا ہے لیکن وقت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ غور کریں اس ملک میں چند سال پہلے اعلیٰ سے ادنیٰ تمام عدالتوں میں کچھ ایسے اذہان براجمان تھے جو اتنے کم ظرف تھے کہ معمولی ذہنی اذیت دینے کے لیے جو مجسٹریٹی عدالتوں میں طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ملزم کو جمعے کے روز جیل بھیجا جائے اگلے دو دن ہفتے اتوار کی چھٹی ہوگی اس لیے معاملہ رہائی کی جانب گیا بھی تو دو دن بعد جائے گا ، یہ ایک طرح کی ذہنی اذیت سے ذیادہ کچھ نہیں تھا لیکن اس کم ذہنی کو لیکر جب کچھ لوگ اعلیٰ عدالتوں کو پہنچ گئے تو انہوں نے اس ملک کے منتخب نمائندوں کو بھی اذیت دینے کے لیے یہی طریقہ اپنائے رکھا ہر اہم کیس کا فیصلہ محفوظ کرکے جان بوجھ کر جمعہ کو سنایا جاتا جس کے بعد پورے ملک میں ٹرینڈ بنایا جاتا " پٹواریو جمعہ مبارک "پٹواری چیں بہ چیں ہوتے لیکن کیا کرتے ان مبارک بادوں کو وصول کرنے کے علاوہ ، لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا جمعہ مبارک والے انصافی جج گئے تو سپریم کورٹ قاضی کورٹ بن گئی اور یہ جمعہ والی روایت بھی بدل گئی ۔
ضرورپڑھیں:بشریٰ بی بی کو زہر دے دیا گیا ؟ کیمرے نے کیا کیا ریکارڈ کیا؟
اب ایک اور اہم کیس کا فیصلہ ہونا ہے معاملہ ہے آئین کی شق 63 اے کا ،جس میں اب تک ہونے والی شنوائی میں ایسا لگتا ہے کہ پارٹی لیڈر کو مجازی خدا بنانے والی اس آمرانہ شق کو ختم کردیا جائے گا یا اس غیر اخلاقی شق کے سانپ میں سے کم از کم زہر ضرور نکال دیا جائے گا ۔یہ شق ہے کیا اور اس پر پانچ رکنی ججز نے اس وقت کے صدر مملکت عارف علوی کے ریفرنس پر کیا وضاحت کی تھی اس کا مختصر احوال یوں ہے کہ جب 2022 میں اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا تھا تو 20 منحرف اراکین اسمبلی جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا ۔ ان کے ووٹ نا منطور کرنے کے لیے ریفرنس لکھا گیا جس کی شنوائی سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے جسٹس عمر فاروق بندیال کی سربراہی میں کی۔ ان کے دیگر چار ججز میں جسٹس اعجاز الحسن ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندو خیل ایک لمبی تفصیل میں جائے بغیر یہ سارا معاملہ صرف اس لیے کھڑا کیا گیا تھا کہ پنجاب میں حمزہ حکومت کو پی ٹی آئی اراکین اسمبلی سے ووٹ لینے سے روکا جائے اور مرکز میں اُن 20 اراکین منحرف اراکین اسمبلی کو ووٹ دینے سے روکا جائے جو سندھ ہاوس میں پناہ لیئے ہوئے تھے اور پی ٹی آئی کے کارکن حکمران جماعت کے کہنے پر حملہ آور تھے۔ اس ساری صورتحال میں فائدہ صرف پی ٹی آئی کو تھا ، پانچ میں سے تین رکنی اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ جو رکن پارٹی سربراہ کی منشا یا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا، اسے ڈی سیٹ تصور کیا جائے گا اور اگر وہ ووٹ کاسٹ کرچکا ہوگا تو اس کا ووٹ کسی جمع بندی میں نہیں آئے گا ،دو معزز ججز نے اس سے اختلا ف بھی کیا ان ججز میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے ان دونوں اراکین نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ "آئین کی شق 63 اے کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے جیسی ہوگی جس سے آئین کی دیگر شقیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں سپریم کورٹ کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں کہ وہ آئین بناسکے "۔
سپریم کورٹ اُس وقت ساس کورٹ بنی ہوئی تھی جو دھرا دھر آئین لکھ رہی تھی ،گڈ تو سی یو کے سیزن چلائے جارہے تھے اس لیے ان دو ججز کی لاجک کو بھی نہیں مانا گیا اور فیصلہ دے دیا گیا جس سے پنجاب میں حمزہ کی حکومت چلی گئی لیکن بچی مرکز میں عمران خان کی حکومت بھی نہیں اپوزیشن نے بنا پی ٹی آئی منحرف اراکین کے عدم اعتماد منظور کرالی ، عمران خان نے اسمبلی توڑنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی اور حکومت چلی گئی اور اب اسی 63 اے میں کے لیے جوآئین لکھا گیا تھا اسے درست سمت میں لیجانے کی کوشش کی جارہی ہے ظاہر ہے پہلے کچھ لوگوں نے ایک اپنے لیڈر کو بچانے کے لیے آئین بدلا اب اس بدلے ہوئے آئین کو بچانے کے لیے لیڈر بمعہ اپنی ٹیم گالی ، دھمکی اور الزام کی بندوقیں چلا رہے ہیں ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر