(امانت گشکوری) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں, اگر میں ان ترامیم کی قیادت کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی بھی یہی خواہش ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کی پریس ایسوسی ایشن کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں, مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ دیتا ہے کہ اگر 25 اکتوبر سے پہلے ترامیم ہوئیں تو انیسویں ترمیم جیسی پیچیدگیاں نہیں آئیں گی۔
بلاول بھٹو نے اس بات کا اظہار کیا کہ موجودہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کیا ہے, اگر میں ان ترامیم کی قیادت کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی شامل کیا جائے، حکومت نے آئینی ترامیم کا آئیڈیا عدلیہ سے پہلے ہی شیئر کر دیا تھا، جس کے بعد مخصوص نشستیں ہم سے چھن گئیں، شاید اسی لیے ترامیم کو اس بار خفیہ رکھا گیا۔
صحافیوں کے سوالات پر بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی کو عدلیہ کی خامیاں 2022 کے بعد نظر آئیں۔ اگر ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لائے جائیں، کیونکہ معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے، انہوں نے 90 کی دہائی کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت ہم وکیل کرتے تھے اور ن لیگ جج کرتی تھی، اگر کسی ایک شخص کے لیے ترمیم ہوتی تو تاحیات تعیناتی کی شق شامل کی جاتی۔
آئینی عدالت کے قیام کو میثاق جمہوریت کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں قائم کی جانی چاہئیں، کراچی بدامنی کیس کو برسوں سے زیر التوا قرار دیا اور کہا کہ عدالت نے اس کیس کو بنیاد بنا کر سندھ کا بلدیاتی نظام تک تبدیل کیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بدامنی کیا صرف کراچی میں ہے؟ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں؟ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے لیے عدالت آئین کو الگ طریقے سے استعمال کرتی ہے، کوئی جج آ کر یہ کہتا ہے کہ 50 کی دہائی والا کراچی چاہئے، لیکن ایسا ہونے سے معاشی مواقع ضائع ہو جائیں گے، اسٹیبلشمنٹ اختیارات کا غلط استعمال کرے تو میں بول سکتا ہوں، لیکن عدلیہ کے غلط استعمال پر بولنے سے توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئینی عدالت کے ممکنہ سربراہان کا ذکر کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ فائز عیسیٰ ہوں یا جسٹس منصور علی شاہ، ان پر یقین ہے کہ وہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کریں گے، جس طرح ہم نے صدر سے اختیارات لے کر وزیراعظم کو دیے، ویسے ہی عدالت کے اختیارات کو بھی محدود کرنا چاہیے، افتخار چوہدری کے دور میں عدلیہ حکومت کے اوپر حکومت بن گئی تھی اور یہ کھیل ختم ہونا چاہیے کہ کون وزیراعظم بنے گا یا کون چیف جسٹس بنے گا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ
انہوں نے نو مئی کے واقعات کو ملک میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ آج کہا جاتا ہے کہ جو خان کے ساتھ ہے، وہی درست ہے، بزنس کمیونٹی کو دھمکی دے کر ڈیم فنڈ اکٹھا کرنا بھی اختیارات کے غلط استعمال کی مثال ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کے حق میں ہیں؟ جس پر بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا کہ ابھی تو دیکھنا ہے کہ شواہد کیا ہیں، ویسے بھی صدارتی معافی کا اختیار ہمارے پاس ہے، ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی سزائے موت کے خلاف ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں نہیں ہیں۔
ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ کیا مجوزہ آئینی ترامیم کی ڈیڈ لائن 25 اکتوبر تک ہے؟ بلاول نے جواب دیا کہ 25 اکتوبر سے پہلے ترامیم ہوجائیں تو معاملہ پر امن طور پر حل ہوجاۓ گا، بعد میں بھی ہوسکتی ہیں لیکن پھر آمنے سامنے کی صورتحال ہوسکتی ہے، آئینی عدالت کے معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
صحافی نے سوال کیا کہ آئینی عدالت کا خیال اب کیوں آیا؟ بلاول نے جواب دیا کہ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں ہمارا تو 2006 کا مطالبہ ہے اور یہ ہمارے منشور کا حصہ ہے، جس طرح مخصوص نشستوں پر حکم امتناع جاری کیا گیا اس کی ٹائمنگ پر بات کیوں نہیں ہورہی، 14 ستمبر کو پارلیمنٹ کا اجلاس ہونا تھا اس وقت ہفتے والے دن ججز کی 4 صفحات کی وضاحت کی ٹائمنگ پر کیوں سوال نہیں کیا جاتا، آئینی عدالت کے سربراہ کی مدت 3 سال ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا جواز سپریم کورٹ کی اپنی ماضی کی تاریخ ہے، کراچی بدامنی کیس 2011 سے اب تک چل رہا ہے، کبھی اس میں سے واٹر کمشن بن جاتا ہے اور واٹر کمشن وہاں بھی جاتا ہے جہاں پانی ہی نہیں، کراچی بدامنی کیس کو بہانہ بناکر عدلیہ نے ہمارا بلدیاتی نظام ہی متاثر کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کھیل تو یہ کھیلنا چاہیے کہ کون بنے گا وزیراعظم، لیکن یہاں کھیل کھیلا جارہا ہے کہ کون بنے گا آرمی چیف اور کون نہیں بنے گا، 9 مئی کے واقعات بغاوت کے قریب ترین تھے، آئینی ترامیم نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پھر شاید کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں، 18 ویں ترامیم سے مارشل لا کا راستہ روکا صوبوں کو خود مختار بنایا، تمام ادارے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔