25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات کا خدشہ ہے ، بلاول بھٹو کی پی ٹی آئی کو بھی شامل کرنے کی تجویز

Oct 02, 2024 | 20:29:PM

(امانت گشکوری) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں, اگر میں ان ترامیم کی قیادت کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی بھی یہی خواہش ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کی پریس ایسوسی ایشن کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں, مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ دیتا ہے کہ اگر 25 اکتوبر سے پہلے ترامیم ہوئیں تو انیسویں ترمیم جیسی پیچیدگیاں نہیں آئیں گی۔

بلاول بھٹو نے اس بات کا اظہار کیا کہ موجودہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کیا ہے, اگر میں ان ترامیم کی قیادت کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی شامل کیا جائے، حکومت نے آئینی ترامیم کا آئیڈیا عدلیہ سے پہلے ہی شیئر کر دیا تھا، جس کے بعد مخصوص نشستیں ہم سے چھن گئیں، شاید اسی لیے ترامیم کو اس بار خفیہ رکھا گیا۔

صحافیوں کے سوالات پر بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی کو عدلیہ کی خامیاں 2022 کے بعد نظر آئیں۔ اگر ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لائے جائیں، کیونکہ معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے، انہوں نے 90 کی دہائی کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت ہم وکیل کرتے تھے اور ن لیگ جج کرتی تھی، اگر کسی ایک شخص کے لیے ترمیم ہوتی تو تاحیات تعیناتی کی شق شامل کی جاتی۔

آئینی عدالت کے قیام کو میثاق جمہوریت کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں قائم کی جانی چاہئیں، کراچی بدامنی کیس کو برسوں سے زیر التوا قرار دیا اور کہا کہ عدالت نے اس کیس کو بنیاد بنا کر سندھ کا بلدیاتی نظام تک تبدیل کیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بدامنی کیا صرف کراچی میں ہے؟ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں؟ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے لیے عدالت آئین کو الگ طریقے سے استعمال کرتی ہے، کوئی جج آ کر یہ کہتا ہے کہ 50 کی دہائی والا کراچی چاہئے، لیکن ایسا ہونے سے معاشی مواقع ضائع ہو جائیں گے، اسٹیبلشمنٹ اختیارات کا غلط استعمال کرے تو میں بول سکتا ہوں، لیکن عدلیہ کے غلط استعمال پر بولنے سے توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آئینی عدالت کے ممکنہ سربراہان کا ذکر کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ فائز عیسیٰ ہوں یا جسٹس منصور علی شاہ، ان پر یقین ہے کہ وہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کریں گے، جس طرح ہم نے صدر سے اختیارات لے کر وزیراعظم کو دیے، ویسے ہی عدالت کے اختیارات کو بھی محدود کرنا چاہیے، افتخار چوہدری کے دور میں عدلیہ حکومت کے اوپر حکومت بن گئی تھی اور یہ کھیل ختم ہونا چاہیے کہ کون وزیراعظم بنے گا یا کون چیف جسٹس بنے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ

انہوں نے نو مئی کے واقعات کو ملک میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ آج کہا جاتا ہے کہ جو خان کے ساتھ ہے، وہی درست ہے، بزنس کمیونٹی کو دھمکی دے کر ڈیم فنڈ اکٹھا کرنا بھی اختیارات کے غلط استعمال کی مثال ہے۔

مزیدخبریں