(ویب ڈیسک) اردو زبان کی ایک کہاوت بہت زیادیہ مشہور ہے کہ جب اوپر والا دیتا ہے تو چھپڑپھاڑ کر دیتا ہےاور یہ کہاوت بھارتی ریاست مہارشٹرا کے شہر ممبئی سے متصل علاقے پال گھر کے ماہی گیر کے لئے سچ ثابت ہوئی ۔ پال گھر کے ماہی گیر چندر کانت ترے کے ساتھ ایسا ہی کرشمہ ہوا ۔ مون سون کے دوران سمندر میں ماہی گیری پر پابندی ہے ، چندرکانت پہلی بار 28 اگست کی رات کو بحیر ہ عرب میں ماہی گیری کے لئے گیا تھا ۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے اس کی جال میں ایک اور دو نہیں بلکہ 157 قیمتی گھول مچھلی پھنس گئی ۔ ان مچھلیوں کو چندرکانت اور ان کے بیٹے سومناتھ ترے نے کل 1.33 کروڑ بھارتی روپے(پاکستانی اڑھائی کروڑ سے زائد)میں فروخت کیں۔ یعنی اسے ایک مچھلی کے لئے تقریبا 85 ہزار روپے (ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد پاکستانی روپے)ملے ۔
بھارت کی ایک نجی ٹی وی چینل کی ویب رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں گھول مچھلی کی بہت قیمت ہے۔ یہ مچھلی طبی علاج میں فائدہ مند ہوتی ہے ۔ چندرکانت ترے کے بیٹے سومناتھ نے بتایا کہ چندرکانت ترے سمیت آٹھ لوگوں کے ساتھ کشتی میں مچھلی پکڑنے گئے تھے ۔ تمام ماہی گیر ممبئی میں سمندر کے کنارے سے 20 سے 25 ناٹیکل میل اندر وادھوان کی طرف گئے۔ ماہی گیروں کو 157 گھول مچھلی ملی ، جسے سمندری سونا بھی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ ان مچھلیوں کی قیمت سونے سے کم نہیں ہے۔گھول مچھلی یعنی جسے سمندری سونا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا نام 'پروٹونیبیا ڈیاکینتھس' بھی ہے ۔ اس مچھلی کو سونے کے دل والی مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔ گھول مچھلی طبی علاج ، ادویات ، کاسمیٹکس کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ تھائی لینڈ ، انڈونیشیا ، جاپان ، سنگاپور جیسے ممالک میں ان مچھلیوں کی بہت مانگ ہے۔ سرجری کے لئے استعمال ہونے والے دھاگے ، جو خود پگھل جاتے ہیں ، وہ بھی اسی مچھلی سے بنائے جاتے ہیں۔ان مچھلیوں کو بھارتی ریاستوں اترپردیش اور بہار کے تاجروں نے نیلامی میں خریدا ہے ۔ سمندر میں آلودگی کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے یہ مچھلیاں ساحل پر نہیں پائی جاتیں ۔ ان مچھلیوں کے لئے ماہی گیروں کو گہرے سمندر میں جانا پڑتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بسنتی تین عاشق۔۔۔ ایک قتل ہوا مگر کیسے اور کس نے کیا۔۔۔؟