احمدراہی:سدابہارمقبول گیتوں کے خالق کوبچھڑے22برس بیت گئے
چالیس سال فلمی دنیاسے وابستہ رہے،آخری گانا 1998ء میں پنجابی فلم ”نکی جئی ہاں“کے لئے لکھاتھا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)نامورنغمہ نگار،شاعراورمکالمہ نویس احمدراہی کومداحوں سے بچھڑے22برس بیت گئے لیکن ان کے لکھے ہوئے نغمات انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں,یہ نامورشاعر 2 ستمبر 2002ء کو 78 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے اور لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔
12نومبر 1923ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا,ایم اے او کالج میں سیف الدین سیف ان کے کلاس فیلوتھے جن کی دوستی نے انہیں شاعر بنادیااورانہوں نے نام کے ساتھ غلام ہٹا کراحمد کے ساتھ راہی کا اضافہ کرلیا,سیف الدین سیف اوراحمدراہی نے شاعری کا آغازپنجابی شاعری سے کیا،سیف الدین سیف شاعری میں احمدراہی کے اُستادتھے,تقسیم ہند کے بعداحمدراہی نے ترقی پسند ادبی مجلے ”سویرا“ کی ادارت سنبھالی پھرفلمی دُنیا کا رخ کرلیا اورفلمی کیریئر کا آغازتقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے پس منظر میں بننے والی پنجابی فلم ”بیلی“سے کیاجس کی کہانی سعادت حسن منٹو نے لکھی تھی۔
احمدراہی نے اس کے بعدپرواز، مجرم، پتن،ماہی منڈا،یکے والی اور سردار جیسی فلموں کے علاوہ مسعود پرویز اور خواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم”ہیررانجھا“کے بھی نغمات لکھے جن میں ”سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے“ اور”ونجھلی والڑیا توں تے موہ لئی اے مٹیار“بے حد مقبول ہوئے تھے۔
احمدراہی کے لکھے مقبول نغموں میں میری چُنّی دیاں ریشمی تنداں،چوڑے والی بانہہ نہ مروڑ،نہ عشق نوں لیکاں لائیں،برے نصیب میرے،نِکے ہوندیاں دا پیار،سُنجے دل والے بوہے اجے میں نہیوں ڈھوئے،آندا تیرے لئی ریشمی رومال،جدوں تیری دُنیا توں پیار ٹرجائے گا،رناں والیاں دے پکن پروٹھے، کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا،اینی گل دس دیو نکے نکے تاریو اوردیگر شامل ہیں۔
احمد راہی نے تقریباً ایک درجن اردو فلموں کیلئے بھی نغمے تحریر کئے,ہدایتکار ایس سلیمان کی فلم”باجی“کے گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈقائم کئے،ملکہ ترنم نورجہاں اور نسیم بیگم کی آواز میں گائے ہوئے یہ گیت آج بھی سُننے والوں کوسحر میں جکڑلیتے ہیں۔
رومانوی داستانوں ہیررانجھا،مرزا صاحباں اورسسّی پنوں کے نغموں کے علاوہ ان کے اسکرپٹ بھی احمدراہی نے لکھے تھے,”یکے والی“ اور”چھومنتر“ کے گیتوں نے احمد راہی کی کایا پلٹ دی،یہ دونوں سپرہٹ فلمیں تھیں,”چھومنتر“کاایک گیت”برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا،نظر ملا کے کوئی لے گیا قرار میرا“اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔فنّی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی،نگار اور بولان ایوارڈز سے بھی نوازا گیاتھا۔
پنجابی ادب میں احمدراہی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نظموں کا مجموعہ”ترنجن“ہے جس میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا,”ترنجن“ کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا تھا,ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نمی نمی وا اور رُت آئے رُت جائے شامل ہیں۔
احمد راہی لگ بھگ چالیس سال تک فلمی دنیاسے وابستہ رہے،انہوں نے آخری گانا 1998ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ”نکی جئی ہاں“کے لئے لکھاتھاجس پرانہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔