(24نیوز)قانونی اورآئینی ماہرین قانون نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو شرمناک اور آئینی نظام پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے تھے۔ صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اسمبلی تحلیل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ،آج ملکی تاریخ کا سیاہ دن ہے ،ملک کو آئینی اور پارلیمانی انداز میں چلنا چاہئے ،آج سول کپڑوں میں ایک آمر آئین پر شب خون مارا ،صدر ، وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آج اعلیٰ عدلیہ نے نوٹس نہ لیا تو عوام عدلیہ کو بھی بحران کا حصہ دار سمجھیں گے۔
ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے ایک انٹرویومیں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے صریحاً آئین کے خلاف اور انتہائی شرمناک رولنگ دی ہے اور آئینی نظام اور عمل کو منجمد کردیا اور آگے بڑھنے سے روک دیا۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد ختم کردی،اب وزیراعظم ایک ایسے وزیراعظم تھے جن کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں تھی لہٰذا انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا۔انہوںنے کہاکہ اب معاملہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد عبوری حکومت پر جائے گا اور الیکشن کی تاریخ مقرر ہو جائے گی۔معروف قانون دان نے کہا کہ یہ معاملہ اگر عدالت میں جاتا بھی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست تھی یا نہیں تو اس میں کئی ہفتے اور مہینے لگ جائیں گے کیونکہ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے، آئین کا آرٹیکل 69 یہ کہتا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ اور ایوان میں ہوئے کسی عمل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اگر عدالت کوئی استثنیٰ دیتی ہے تو اس میں کافی وقت لگ جائے گا۔انہوں نے کہاکہ عدالت میں یہ معاملہ جاتا ہے تو حکومت یہ مو¿قف اختیار کرے گی کہ اب چونکہ معاملہ عوام کے پاس جا رہا ہے تو آپ دخل اندازی نہ کریں اور عوام کو فیصلہ کرنے دیں، اسپیکر کی رولنگ صحیح تھی یا نہیں تھی، اب یہ معاملہ عوام طے کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن عدالت میں یہ موقف اختیار کرے گی کہ عدم اعتماد ہمارا حق تھا اور اس کو غیرآئینی طریقے سے مسترد کیا گیا ہے لہٰذا تحریک عدم اعتماد کو بحال کیا جائے اور اسپیکر کو حکم دیا جائے کہ وہ ووٹنگ کے لئے سیشن منعقد کرے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے کہ کیا الیکشن ہونے دیا جائے یا واپس تحریک عدم اعتماد کو بحال کر کے اس پر ووٹنگ کی جائے۔انہوں نے کہا کہ غیرملکی سازش کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس بات کو جواز بنا کر فوراً رولنگ دے کر جس طرح ڈپٹی اسپیکر اٹھ کر گئے ، یہ آئینی نظام پر حملہ تھا۔انہوںنے کہاکہ بیرونی سازش کی بات زیادہ دور تک نہیں جائے گی، اس کا مقصد انہوں نے حاصل کر لیا، اس کا مقصد یہی تھا کہ اس کو جواز بنا کر اس سیشن کو مو¿خر کیا جائے اور اس تحریک کو ختم کردیا جائے، اس بیانیے کا مقصد یہی تھا اور وہ انہوں نے حاصل کر لیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہو گا کہ ایک صریحاً غیرقانونی عمل کو نظرانداز کر کے ہم الیکشن کی طرف بڑھ جائیں یا اس عمل کو غیرآئینی قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کو بحال کیا جائے۔
ماہر قانون اسد رحیم خان نے کہا کہ اس معاملے میں آئین سے انحراف کیا گیا ہے کیونکہ آرٹیکل 58 میں تفصیل بہت واضح ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹ نہ ہو جائے یا اس عمل کی پیروی نہ کی جائے اس وقت تک وزیراعظم پاکستان اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تحریک عدم اعتماد کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے اور آرٹیکل 58 کی وضاحت بھی اس نکتے سے بہت زیادہ واضح ہے۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ یہ بالکل غیرآئینی اقدام ہے اور حکومت اس کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی، اتنی بڑی خلاف ورزی کو معاف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کو بھی اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ آئین کی خلاف ورزی پر کسی کو معاف کرے۔انہوںنے کہاکہ جو کچھ ہوا ہے بہت غلط ہوا ہے، پاکستان کو اگر ہم اسی طرح سے چلائیں گے تو کیا ہم انارکی کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے بیرونی سازش کی نشاندہی کر کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دینا درست نہیں، وہ بالکل مختلف بات ہے، اسپیکر صاحب نے یہ ازخود کیسے سوچ لیا کہ یہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر ملی بھگت ہے اور وہ ملی بھگت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔عرفان قادر نے کہا کہ اگر اپوزیشن اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جاتی ہے تو اس میں وفاق کا موقف کون دے گا، اس وقت ریاست کی نمائندگی کرنے والا اٹارنی جنرل کون ہو گا، ان حالات میں ان کا تقرر بھی غلط ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آخری حل نہیں ہے بلکہ آئین خود ہے، اگر اس کی خلاف ورزی شروع ہو جاتی ہے تو سپریم کورٹ پارلیمنٹ تو نہیں چلائے گی، یہ چیز تو ہوئی ہی صریحاً غلط ہے۔
واضح رہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دےکر اسے مسترد کرتے ہوئے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں۔ آئینی بحران پر از خود نوٹس۔۔کوئی ادارہ غیر قانونی قدم نہ اٹھائے۔۔چیف جسٹس
قانونی ماہرین نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو آئینی نظام پر حملہ قرار دیدیا
Apr 03, 2022 | 19:32:PM