جب سابق وزیراعظم ہیں ”جنرل باجوہ نے امریکہ کو میرے خلاف کیا، مجھے چلنے نہیں دیا“
یہ دوغلا پن صرف ایک مثال ہے۔ جو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عمران خان صاحب کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں، وہ خود ہیں۔ وہ وقت چلا گیا جب آپ جناب سرکار کی مثبت رپورٹنگ کروائی جاتی تھی اور گند کو سوغات بنا کر قوم کو کھلایا جاتا تھا۔ اب سب کچھ سب کے سامنے آ چکا۔ کوئی کچھ بولے اور سمجھے، پاکستان کی سیاست کے اس کھلے دھوکے اور کھلواڑ کو ننگا کرنے کا کریڈٹ بھی اسی کا ہے جس کا ڈس کریڈٹ تھا۔ جی ہاں، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ۔ وطن عزیز میں کبھی کسی نے کسی برائی کا ذمہ نہیں اٹھایا۔ یہاں تو تباہی کا دیوان غالب تھا۔ بڑا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے جب تاریخ کا جبر آپ کو اپنے ہی تراشے بت کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، بت بھی ایسا جس کی زبان سو گز لمبی ہو اور وہ منافقت، جھوٹ، حسد، احسان فراموشی، کم ظرفی، بد گمانی کی ایسی مثال بننے کی راہ پر چل پڑے جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔
آج کل خبط سوار ہے کہ ہر تقریر، انٹرویو، بیان میں جنرل باجوہ کو قصوروار ٹھہرانا ہے۔ کراؤڈ ضرور ایسا ملا جو دماغ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری ہو چکا ہے، ہر جملے، ہر ادا پر صدقے واری ہوتا، تالیاں بجاتا ہے۔ مگر اب خواب غفلت سے جاگنے والوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو چکی ہے۔ یہ کریڈٹ اسی کا ہے جس کا ڈس کریڈٹ تھا۔ یہ کریڈٹ جنرل باجوہ کا ہی ہے کہ دو ہزار بائیس کے آغاز پر مسلسل نااہلیوں پر اسٹیبلشمنٹ نے مزید سیاسی کردار ادا کرنے سے معذرت کی تو خان صاحب تین ماہ بھی نہ نکال سکے۔
عمران خان صاحب آج جو باتیں کر کے گمراہ کن بیانیہ گھڑنے پر تلے بیٹھے ہیں، ذرا یہ تو بتائیں آپ کیسے جمہوری لیڈر تھے جس نے خود فوج کے سربراہ کو سیاست اور حکومت میں شامل کیئے رکھا۔ 2018 میں آپ کیسے لائے گئے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بہت ساری تلخ حقیقتوں سے تو ہم ذاتی طور پر آگاہ ہیں، آپ نے امور سلطنت کے لیے جو ٹیم منتخب کی ان کا تو فوکس ہی کچھ اور تھا، اسی لیے آپ کا سارا دور حکومت تو جنرل باجوہ کے زور پر ہی چلتا رہا۔ پارلیمان کو بے وقعت کر کے ہائبرڈ نظام متعارف کرانے کا کارنامہ جناب کے کھاتے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لکھا جا چکا ہے۔ کسے نہیں معلوم آپ نے سارے اختیارات بطور ڈپٹی وزیراعظم جنرل باجوہ کو سونپ رکھے تھے۔ ظاہر ہے آپ تو بس بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر پر ڈائری سمیت وزیراعظم ہاؤس آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی پر آتے تھے اور عین شام پانچ بجے ڈائری سمیت واپس گراؤنڈ ہو جاتے تھے۔ کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟ آپ کی تو ٹیم اتنی فارغ تھی کہ پارلیمنٹ سے کوئی بل پاس کرانے میں بھی جنرل باجوہ کو ہی ڈیوٹی دینا پڑتی تھی۔
غیر ممالک سے امداد لینی ہو تو جنرل باجوہ، قرضہ منظور کرانا ہو تو چیف کی مدد چاہیے۔ فیٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہو تو جی ایچ کیو دن رات ایک کر دے۔ معاشی مسائل، کاروباری طبقے کو مطمئن کرنا ہو، معاشی اصلاحات پر بات کرنا ہو تو آرمی چیف اس ٹیم کا حصہ ہو۔ کمال دیکھیں آپ نے فوج کے سربراہ سے کیا کیا کام نہیں کروائے۔ آپ کے بیرون ممالک دوروں کے فوٹو سیشنز کے بڑے چرچے ہوتے ہیں کہ واہ کیا تصویریں ہیں، دیکھیں خان کا رعب، لیکن جناب اندر کی بات تو یہ ہے کہ آپ کے غیر ملکی دوروں سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ جا کر معاملات طے کرتے تھے اور آپ خود یہ اہتمام اس لیے کرواتے تھے کہ اپنی نااہلیت سے خوفزدہ رہتے تھے۔
اپنے بیانیے کو تحفظ دینے، اپنے کراؤڈ کو گمراہ کیئے رکھنے کے لیے اپوزیشن کو ڈنڈا دینے پر زور رہا۔ اس کے لیے بھی فوج کے سربراہ کی ساری طاقت کو استعمال کرتے رہے۔ خان صاحب، یہ تو آپ کے چار سالہ دور حکومت اور نااہلیت پر مبنی حکمرنی کی ابھی محض ایک جھلک ہے۔ لیکن اب یہ سب کچھ سامنے آ چکا ہے۔اور اس کا کریڈٹ اسی جنرل باجوہ کا ہے جس کا ڈس کریڈٹ بھی آپ کی شکل میں قوم کے سامنے ہے۔ دیر آید درست آید۔ جنرل باجوہ نے کیا تو کمال ہے کہ آئینہ دکھا دیا، لیکن اب وقت ہے کہ آپ خود بھی آئینہ دیکھ ہی ڈالیں۔ آپ اور آپ کی تحریک انصاف کے رہنما آرمی چیف کو قوم کا باپ کہتے تھے۔ باجوہ صاحب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، اب الزامات لگانا، پراپیگنڈے پر زور، جھوٹ کی سیاست۔ اس منافقت سے نکل آئیں، لیڈر بنیں۔ باجوہ صاحب کی غلطیاں گنوانے کی بجائے یہ بتائیں بطور وزیراعظم آپ نے کیا کیا ؟۔
آج کی فوج کی قیادت اور جوانوں کے درمیان عدم اعتماد بڑھانے کی روش آپ کی اپنے آپ کے ساتھ ایک اور بڑی دشمنی ہوگی۔ راستہ بدل لیں، لیڈر بنیں۔ اپنی کوتاہی، نا اہلیوں کو جرات مندی سے تسلیم کریں اور کٹہرے میں کھڑے ہو جائیں۔ جنرل باجوہ کو اپنی غلطیوں کا قصور وار ٹھہرانے کا جھوٹ مزید نہیں چلے گا۔ آپ کے نکمے پن کا اعتراف جرم ناگزیر ہے۔