پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کیس کا فیصلہ محفوظ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(فرزانہ صدیقی) سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے حوالےسے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے حوالےسے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کر دیا، کیا کارروائی میں شامل ہوں گے، اخبارات میں بائیکاٹ کا چھپا ہوا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہونگے۔
جسٹس منیب اختر نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی پر چلا ہے کہ ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے، سب اعلامیے کی خبریں چلاتے رہے ہیں، کیا آپ نے وہ اعلامیہ واپس لیا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر کس نے بائیکاٹ کیا ؟۔
چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی آپ کو نہیں سن رہے، ہمیں معلوم ہے حکومتیں کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کرتیں، اگر آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تو تحریری طور پر بتائیں۔ عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ قومی ٹی وی پر آیا حکومتی جماعتوں نے اجلاس بلا کر سماعت کا بائیکاٹ کیا، اجلاس میں کہا گیا ہے کہ بنچ پر اعتماد نہیں ہے، آپ کیسے ایک طرف بائیکاٹ اور دوسری طرف سماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ہمیں ایسی ہی توقع تھی۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بنچ بنا، 4 ججز نے درخواستیں مسترد کیں، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستیں مسترد کی تھیں، جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستیں مسترد نہیں کیں، آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور کے پی کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے ؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، سپریم کورٹ ایک معاملے پر اپنا فیصلہ سنا چکی ہے، اس فیصلے پر عملدر آمدضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا چیف جسٹس چاہیں تو مجھے بنچ میں دوبارہ شامل کر سکتے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب جج نے کہہ دیا کہ چیف جسٹس کی مرضی ہے بنچ میں رکھے یا نہ تو بات ختم۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 9 رکنی بنچ نے کہا کہ چیف جسٹس نیا بنچ تشکیل دیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی کیس میں ایسا ہوا کہ ایک دن جج درخواست مسترد کرے اگلے دن اسی بنچ میں بیٹھ جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کاروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چار تین کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس نو رکنی بنچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بنچ کا ہوگا یا 5 رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تفصیلی اختلافی نوٹ میں بنچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بنچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بنچ الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ چار ججز کو بنچ سے نکالا گیا، 9 رکنی بنچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، کسی جج نے بنچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی آئینی شق نہیں کہ جج کو بنچ سے نکالا نہیں جاسکتا۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ججز نے کہا کہ آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکم نامے میں ایسا کچھ نہیں لکھا فٹ نوٹ آپ پڑھ رہے ہیں، سرکولر میں از خود نوٹس کے انتظامی احکامات کو موخر کیا گیا، سرکولر میں کسی عدالتی فیصلے کو مسترد نہیں کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا، جسٹس قاضی فائز کے فیصلے میں اس کیس کو روکنے کا کہا گیا، جسٹس قاضی فائز نے اپنے فیصلے میں خواہش ظاہر کی مگر کوئی ایسا حکم چیف جسٹس کو نہیں دیا جاسکتا، از خود نوٹس کے تمام مقدمات کو کیسے روک دیا جائے، کیا آپ ہمارے سرکولر کو چیلنج کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بنچ کا حکم سب پر لاگو ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ موجودہ کیس کی بات کریں اس کیس میں ایسی کوئی درخواست نہیں ہے، دو ججز نے فیصلہ دیا آپ اس کو جس طرح پڑھنا چاہیں پڑھیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے سی سی پی او کیس میں انتخابات کا از خود نوٹس لیا، از خود نوٹس بنیادی حقوق کے علاوہ کسی اور معاملے پر نہیں لیا جاسکتا، پہلے از خود نوٹس کے اختیارات میں ترمیم ہو بعد میں کیسز سنیں جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ مفروضوں پر مبنی ہے، بہت اہم معاملات پر از خود نوٹس لیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دو سابق اسپیکرز نے درخواستیں دائر کی تھیں، دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، آپ چیزوں کو خود سے پالش کر کے پیش کر رہے ہیں، رولز کی بات ٹھیک ہے مگر لوگوں کے اہم معاملات کو چھوڑ نہیں سکتے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پتا چلا کہ میری فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوچکی۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ ایک طرف فل کورٹ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف کیس موخر کرنے کا کہہ رہے، آپ اپنا ایک ذہن بنا لیں کہ عدالت سے چاہتے کیا ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو مرتبہ فل کورٹ کی استدعا کی مگر مانی نہیں گئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، آپ کی اب استدعا فل کورٹ کے بجائے لارجر بنچ کی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 9 رکنی بنچ کے فیصلے میں دکھا دیں کسی جج نے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کیا ہو، ججز نے کہا چیف جسٹس کی مرضی ہے بنچ میں شامل کریں یا نہیں، پچھلے تین روز سے سپریم کورٹ کے سینئر ججز سے مشاورت کر رہا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے نہ کہ سماعت موخر کرنے میں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیصلے میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔ جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس جسٹس فائز عیسی فیصلے کی تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ 184 تین کے رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کریں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے رواں سال پہلا از خود نوٹس لیا تھا، جسٹس فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا یے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن کل بینچ نہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ججز کے فیصلے پر نظر ثانی کر لی جائے، صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی تب ہو جب وہ فیصلہ آپریشنل ہو، آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں ؟ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں، آرمڈ فورسز میں نیوی اور ایئر فورس بھی شامل ہیں، اگر پاک آرمی کی نفری مصروف ہے تو دیگر سروسز سے بندے لیے جاسکتے ہیں، نیوی سمیت دیگر فورسز سیکورٹی کیلئے لی جاسکتی ہیں جو حالت جنگ میں نہ ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری کی علالت کے باعث ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے رپورٹ جمع کرائی ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیا سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ بھی حساس ہے ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جا رہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، ایڈیشنل سیکرٹری صاحب آپ نے آئی ایم ایف پروگرام کا بتایا ہے، آپ کرنٹ اکاؤنٹ اور فسکل خسارے کو کم کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 20 ارب الیکشن کیلئے چاہئیے، ہمیں بتائیں کونسا ایسا پروجیکٹ ہے جو 20 ارب سے کم کا ہے، ہمیں سنتے رہتے ہیں فلاں سڑک اور پروجیکٹ کیلئے اتنے ارب رکھ دیئے گئے، درخواستگزار نے بتایا کہ 170 ارب آپ ایم این ایز کو دے رہے ہیں، پی ایس ڈی پی میں کوئی کٹ لگایا گیا ہے۔ جس پر ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق پی ایس ڈی پی میں کٹ نہیں لگایا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ 20 ارب روپے اگر آپ دیتے تو کھربوں میں سے کتنے فیصد ہوگا، اگر 20 ارب دینے پڑ جائیں تو کیا ایک کھربوں روپے کے بجٹ والا ملک نہیں دے سکتا، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈ میں شاید کھربوں روپے پڑے ہونگے، قومی خسارے میں 20 ارب شامل ہوجائیں تو کتنے فیصد نقصان بنے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کے مطابق سود کی ادائیگی بڑھ گئی پیٹرولیم مصنوعات کا خسارہ بڑھ گیا ہے، آپ ہم سے شروع کریں، اخراجات کم کیوں کم نہیں کرتے، تھوڑا تھوڑا کر کے اداروں کے اخراجات کم کریں، یہ پیٹ کاٹنے والی بات ہے 5 فیصد اخراجات کم کریں کام ہوجائے گا۔
عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ آپ نے کیسے حکم پہلے دے دیا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں، پہلے مجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتا دیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کرلیا۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں سابق وزیر خزانہ ہوں، ہمارے بجٹ میں نو سو ارب سے زیادہ رکھے گئے ہیں، اس سال کا بجٹ خسارہ چار اعشاریہ نو فیصد ہے، 20 ارب اگر الیکشن کیلئے دے دیئے جائیں تو بجٹ خسارے پر معمولی سا فرق آئے گا، اس سال کا ترقیاتی بجٹ سات سو ارب ہے۔
اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ پہلے آٹھ ماہ میں 229 ارب روپے خرچ ہونے ہیں، ایم این ایز کو خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں گے، آئین ذمہ داری پورا کرنے کیلئے 20 ارب روپے کا بہانہ ایک مذاق ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسد عمر کی باتوں کے بعد تو انتخابات ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے آٹھ ماہ میں 229 ارب خرچ کیے، اس کا مطلب کٹ لگائے گئے ہیں، توجہ کہیں اور ہے، ترقیاتی بجٹ کو کم نہ کریں غیر ترقیاتی بجٹ کو کم کر دیا جائے۔ جس پر ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ غیر ترقیاتی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت معاشی بہتری کیلئے اچھے اقدامات کر رہی ہے، وقفہ لیتے ہیں اور بعد میں عرفان قادر کو سنتے ہیں۔
وقفے سماعت کے بعد عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا آپ نے ہلکے موڈ میں کہا تھا کہ 3 منٹ میں دلائل مکمل کروں گا لیکن اتنے میں تو دلائل ختم نہیں ہونگے۔ جس پر عرفان قادر نے کہا کہ آپ 3 منٹ نہیں، 30 منٹ کا سوچ لیں، 30 منٹ میں دلائل مکمل کروں گا۔
عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 ججز نے معاملہ سنا، 4 نے خارج کیا، 3 نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کا حکم دیا، بنچ میں موجود ارکان نے پہلے ایک فیصلہ دیا جو تنازع کا شکار ہے، یہ دیکھنا کہ یہ 4/3 کا فیصلہ تھا یا 3/2 کا۔
عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ ایک سیاسی گروپ کے بنیادی حقوق پوری قوم کے بنیادی حقوق نہیں ہو سکتے، قومی مفاد سے کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا، میرے خیال میں پورے ملک میں انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ کے بجائے معاملے کو پہلے ہائیکورٹ کو حل کرنا چاہئے، سپریم کورٹ ایک عدالت ہے، الیکشن کمیشن نہیں۔
سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ جو تین رکنی بنچ بنایا گیا اس پر سوشل میڈیا پر بہت سی باتیں ہوئیں، تین رکنی بنچ کے ساتھ جانبداری کا عنصر شامل کر کے کچھ الفاظ جوڑے جا رہے ہیں، انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہیے، میرے خیال میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، یہ سب کہہ کر کے میں ججز کے وقار پر بات نہیں کر رہا، پی ڈی ایم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے جو پورا نہیں کیا گیا۔
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ بنچ کی جانبداری کی باتیں سب کر رے ہیں، پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال تو سارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، تین رکنی بنچ کی بدنیتی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، ایک جانب درخواست گزار سیاسی جماعت ہے اور دوسری جانب حکومت ہے۔
عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ آج بہت سیر حاصل بحث سننے کو ملی، 9 ججز نے معاملہ سنا، چار نے خارج کیا، تین نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کا حکم دیا، یہ بنچ ججز کے درمیان اختلاف کو ختم کرے، ججز کے درمیان صرف اندرونی نہیں بلکہ فیصلے پر بھی اختلاف ہے۔
وکیل الیکشن کمینش نے موقف اپنایا کہ ایک سرکولر سپریم کورٹ کے فیصلے پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ کیس سننے کیلئے فل کورٹ نہ بھی ہو تو مزید ججز کو شامل کیا جائے، عوامی اعتماد کیلئے ضروری ہے کہ تمام سائیڈز سے ججز کو بنچ میں شامل کیا جائے، ایک سیاسی جماعت کے حقوق ساری عوام کے بنیادی حقوق نہیں ہو سکتے۔
عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سے عام اور صوبائی انتخابات ایک ہی دن ہوتے آرہے ہیں، پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے چاہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہئے، فیصلہ تین دو کا تھا یا چار تین کا پہلے اس پر بات ہونی چاہیئے، چیف جسٹس اپنے سرکولر سے خود جج نہیں بن سکتے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ سوشل میڈیا سے ہٹ کر آپ نے بات کی کہ ججز آپس میں ملے، ہم ججز کی ملاقات پرسوں ہوئی ہے، ہم نے ججز اجلاس میں فل کورٹ کی بات کی، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی بات ہوئی اور جلد رولز سے متعلق کام ہوگا۔
عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ ججز کے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے اتفاق رائے پیدا کیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ آپ کے خیال میں قابل عمل نہیں تھا، ججز کو آپس میں ملنا چاہئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا کا ذکر آپ کر رہے ہیں، پرسوں جسٹس قاضی فائز عیسی سے بھی ملاقات ہوئی ہے یہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، ملاقات میں یہ سمجھ آئی کہ شاید جسٹس عیسی اپنے فیصلے کیوجہ سے فل کورٹ کا حصہ نہ بن سکیں، جلد ججز کا فل کورٹ اجلاس بھی بلائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عرفان قادر صاحب آپ کو سراہتے ہیں آپ نے متعلقہ نکتہ اٹھایا، آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا ہے لیکن بتا نہیں رہے ورنہ آپ اس پر بہت آگے نکل جائیں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ بس ایسے میری تعریفیں کر دیا کریں۔ جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
عرفان قادر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں سوشل میڈیا کی بات کر رہا تھا، اس وقت جناب چیف جسٹس سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہیں، چیف جسٹس کے حق میں درخواستوں پر دستخط ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عرفان قادر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم مولا سے خیر مانگتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منصور نے فیصلے میں بہت اچھی بات کہی کہ اگر ایک جج بنچ میں شامل ہو تو اسے نکالا نہیں جا سکتا۔ وکیل عرفان قادر نے کہا کہ کئی بار ہوا ہے کہ جج کے دستخط سے پہلے فیصلے پبلک ہوئے۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کی کوئی دستاویزی ثبوت دکھائیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ججز اگر اپنے چیف جسٹس کے خلاف لکھنے لگیں تو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بتایا گیا ہے کہ ون مین شو والی بات میرے بارے میں نہیں عمومی طور پر کہی گئی۔
ضرور پڑھیں :توشہ خانہ کیس میں نیب تحقیقات،نیب سے جواب طلب
عرفان قادر نے دلائل مکمل کرلئے۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے دلائل بہت خوبصورت اور جامع تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت شکریہ آپ کے دلائل تفریحی بھی تھے۔ عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا ویسے بہت مداح ہوں۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کے بارے میں بتائیں، سیاسی جماعتوں سے کیا ہدایات لے لیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اعلامیے میں عدالتی کاروائی کے بائیکاٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ عدالت پر عدم اعتماد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بائیکاٹ نہیں کیا۔ جس پر وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ نے کہا کہ وکیل وکالت کرتے ہوئے غلام نہیں بن جاتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر آپ وکلاء ذاتی حیثیت میں آتے تو اور بات ہوتی یہاں آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، حکمران جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ تین رکنی بنچ پر اعتماد نہیں ہے۔
وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ نے کہا کہ دن سے یہاں بیٹھ کر انتظار کر رہا ہوں، کیا مجھے اپنی شنوائی کیلئے اخبار میں آرٹیکل لکھنا ہوگا ؟ میں ایک سینئر وکیل ہوں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بائیکاٹ کرنے کے باعث اتحادی جماعتوں کے وکلا کو نہیں سن سکتے۔
سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔