آئی پی ایل اور پی ایس ایل میں سے بہتر لیگ کونسی؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(افضل بلال) بھارت میں جاری کرکٹ لیگ کے دوران دنیا بھر کے کرکٹ دیوانوں میں بحث چھڑ چکی ہے کہ آئی پی ایل اور پی ایس ایل میں سے کونسی لیگ بہتر ہے۔
پاکستان ہو یا انڈیا دونوں ممالک میں ہی کرکٹ کو کھیل سے کچھ زیادہ سمجھا جاتا ہے اور اسے کھیل سے کہیں زیادہ اہمیت بھی حاصل ہے۔ یہاں کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ جذبہ، جنون اور عشق بن چکا ہے۔ اس کھیل کی عاشقی میں لوگ دیوانے ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنے کھلاڑیوں کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اور ہر وقت ان کی تعریفوں کے پل باندھتا نظر آتا ہے۔ اسی لیے پاکستانی پی ایس ایل کو اور بھارت واسی آئی پی ایل کو دنیا کی سب سے بڑی لیگ سمجھتے ہیں اور ہر وقت ہر لحاظ سے ان دونوں کرکٹ لیگز کا موازنہ اور مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ تو آئیں پی ایس ایل اور آئی پی ایل کے چند پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: آئی پی ایل کے مقابلے پاکستان میں کیسے دیکھے جا سکتے ہیں؟
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آئی پی ایل دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ لیگ ہے جس میں پیسہ، شہرت سب کچھ ہے اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہیں پاکستانی کھلاڑی۔تو پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی لیگ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے بغیر کیسے بڑی ہو سکتی ہے؟ پیسے کے بلبوتے یا میڈیا رائٹس کے وجہ سے یا پھر کھلاڑیوں کو کھیلنے کے عوض ملنے والی رقم کی بدولت؟ ایسے بہت سے سوال آئی پی ایل کو دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ لیگ کرار دیتے ہوئے سر اٹھاتے ہیں۔
اگر بات کی جائے دونوں لیگز کے کارناموں کی تو پی ایس ایل کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کو پاکستان واپس لانے کا کارنامہ جو کوئی نہ کر سکا وہ پی ایس ایل نے کر دکھایا ہے۔ پی ایس ایل کی ہی بدولت بین الاقوامی کرکٹ پاکستان واپس آئی ہے اور آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریکا سمیت دنیا کرکٹ کی نامور ٹیمیں پاکستان آ کر کرکٹ کھیل چکی ہیں۔ پی ایس ایل کے مقابلے آئی پی ایل ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔
لازمی پڑھیں: پاک نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز، سکیورٹی کیلئے پاک فوج، رینجرز اور ایس ایس جی کمانڈوز طلب
اگر بات کی جائے لیگ کے ذریعے کھلاڑیوں کا انٹرنیشنل کرکٹ میں آ کر کارگردگی سے متاثر کرنے کی تو اس میں بھی پی ایس ایل بھارتی آئی پی ایل سے آگے ہے۔ کیونکہ پی ایس ایل نے پاکستان کو بہت سےکھلاڑی دیئے ہیں جنہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ میں سب کو حیران کیا ہے اور بین الاقوامی کرکٹ میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔ پی ایس ایل نے دنیا کرکٹ کو شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ اور احسان اللہ جیسےسپیڈ سٹار فاسٹ بالر دیئے ہیں جنہوں نےآتے ہی دنیا کرکٹ پر اپنی بادشاہت اور دبدبہ قائم کیا ہے۔ ان کے علاوہ پی ایس ایل نے شاداب خان، عماد وسیم ، اسامہ میر، شاہنواز دہانی، فہیم اشرف، فخر زمان، محمد حسنین سمیت دیگر کئی کھلاڑی دنیائے کرکٹ میں متعارف کروائے ہیں۔ کیا پی ایس ایل کے مقابلے میں آئی پی ایل نے اتنے کھلاڑی انٹرنیشنل میں متعارف کروائیں ہیںج؟ اگر گنتی کے چند کھلاڑی متعارف کروائے بھی ہیں تو کیا وہ آتے ہی دنیا کرکٹ میں نام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کا نیا لوگو جاری
اگر آئی پی ایل کو کسی اعتبار سے برتری حاصل ہے تو وہ صرف معاشی طور پر حاصل ہے۔ کیونکہ دونوں کے فرنچائز رائٹس میں بہت زیادہ فرق ہے۔ 2015 میں شروع ہونے والی آئی پی ایل کی 8 ٹیموں کی فرنچائز 724 ملین ڈالرمیں فروخت ہوئیں جس کے فرنچائز رائٹس رواں سال تقریباً 11 ارب ڈالر ہیں جبکہ 2015 میں پی ایس ایل کی پانچ ٹیموں کے فرنچائز رائٹس صرف 90 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئے تھے۔ اسی طرح آئی پی ایل میں کھلاڑی خریدنے کے لیے ہر ٹیم کے پاس ایک کروڑ ڈالرز سے زیادہ کا بجٹ ہوتا ہے جو کہ پی ایس ایل میں صرف 12 لاکھ ڈالرز ہے۔ آئی پی ایل کے ٹائٹل اسپانسرشپ کیلئے ٹاٹا نے 2 سال کیلئے 62 اعشاریہ 4 ملین ڈالرز ادا کیے وہیں ایچ بی ایل بینک نے پی ایس ایل میں تین سالوں کیلئے 22 اعشاریہ 2 ملین ڈالرز ہی ادا کیے۔
مزید جانیں: آئی پی ایل ،ویرات کوہلی کےنئے ٹیٹو کا کیا مقصد ہے؟
دوسری جانب جہاں آئی پی ایل نے میڈیا رائٹس ڈھائی ارب ڈالرز میں دیئے وہیں پی ایس ایل نےدو سال پہلے میڈیا رائٹس ڈیڑھ کروڑ ڈالرز میں فروخت کیے ہیں۔ آئی پی ایل میں جیتنے والی ٹیم کو 24 لاکھ ڈالرز اور رنر اپ ٹیم کو تقریباً 16 لاکھ ڈالرز انعام دیا جاتا ہے وہیں پی ایس ایل میں جیتنے والی ٹیم کو سوا 4 لاکھ ڈالرز اور ہارنے والی ٹیم کو ایک لاکھ 70 ہزار ڈالرز بطور انعام دیئے گئے ہیں۔ اگر بات کی جائے مہنگے ترین کھلاڑی کی تو انگلینڈ کے آل راؤنڈر سیم کرن آئی پی ایل سیزن 16 کے مہنگے ترین کھلاڑی ہیں جن کو ساڑھے 18 کروڑ انڈین روپے کے عوض خریدا گیا ہے جو کہ پاکستان سپر لیگ کی دو ٹیموں کے بجٹ کے برابر ہے۔
لہٰذا پاکستان اور بھارت کی کرکٹ لیگ کا معاشی طور پر کوئی موازنہ نہیں بنتا کیونکہ دونوں ممالک کی معیشت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔